ایشیا کپ فائنل: ’لگ رہا ہے بھارتی ٹیم ورلڈکپ کے لیے تیار ہے‘
یہ فیصلہ کرنا کافی مشکل ہے کہ ایشیا کپ کا فائنل زیادہ بدمزہ تھا یا ایشیا کپ کا شیڈول۔ پورے ٹورنامنٹ میں آتی جاتی، رکتی چلتی بارشیں کھیل سے زیادہ موضوع بحث رہیں اور فائنل میچ تو جیسے شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ صرف 21.3 اوورز میں بھارت کی ٹیم آٹھویں بار ایشین چیمپیئن بن کر سامنے آگئی اور سری لنکن ٹیم جو آخری دو میچز میں کافی عمدہ کارکردگی پیش کر رہی تھی، فائنل میں مقابلے سے بالکل ہی باہر نظر آئی۔
پاکستان کے خلاف سپر فور مرحلے کے میچ میں بھارتی فاسٹ باؤلرز نے پاکستانی بیٹسمینوں کو کچھ ایسے قابو کیا تھا کہ ان کے پہلے اسپیل میں ہی میچ کا فیصلہ آچکا تھا لیکن کل سراج کے حملے کچھ ایسے تھے کہ ایک وقت تو سری لنکا کا کم از کم اسکور پر آل آؤٹ ہونے کا ڈر پیدا ہو گیا تھا۔
اننگ کے پہلے اوور میں جسپریت بمرا نے کوسال پریرا کو چلتا کیا لیکن تباہی لانے والا اوور اننگ کا چوتھا اوور تھا۔ اس اوور میں محمد سراج ہیٹ ٹرک پر تھے، ہیٹ ٹرک تو نہ کر سکے لیکن ایک ہی اوور میں چار وکٹیں گرا کر سری لنکا کی جانب سے کسی بھی مزاحمت کے امکان کو ختم کر دیا۔
اس اوور میں جہاں سراج کی جانب سے شاندار باؤلنگ کا مظاہرہ کیا گیا، وہیں سری لنکن بیٹسمینوں کی جانب سے غیر ذمہ داری کی انتہا ہو گئی۔ آؤٹ ہونے والے چار میں سے تین بیٹسمین نسانکا، اسالانکا اور ڈی سلوا باہر جاتی گیندوں کا پیچھا کرتے ہوئے وکٹ گنوا بیٹھے۔
سراج نے 6 وکٹیں حاصل کیں تو رہی سہی کسر ہاردک پانڈیا نے تین وکٹیں حاصل کرکے پوری کر دی اور سری لنکا کی جانب سے واپسی کی کوئی بھی امید باقی نہ رہی۔ اس کے بعد بھارتی اننگ تو صرف رسمی کارروائی ہی تھی جو پوری کر دی گئی اور یوں بھارتی ٹیم نے ایشیا کپ 2023ء میں فتح حاصل کرلی۔ ایک ایسا ٹورنامنٹ جس میں ٹورنامنٹ کے آغاز سے بہت پہلے سے ٹورنامنٹ کے اختتام تک کھیل اور کھلاڑیوں سے کہیں زیادہ میزبانی، شیڈول، شیڈول میں تبدیلی، بارشیں اور ریزرو ڈے زیادہ زیر بحث رہے۔
یہ ٹورنامنٹ ہونا تو پاکستان میں تھا لیکن بھارتی ٹیم کو حکومت کی جانب سے پاکستان آنے کی اجازت نہ ملی اور یوں متبادل میزبان کی تلاش شروع ہوئی۔ اسے کسی حد تک 2018ء کے ایشیا کپ کا بدلہ بھی کہا جاسکتا ہے جو بھارت میں ہونا تھا لیکن پاکستانی کرکٹ بورڈ کے انڈیا جانے سے انکار پر متحدہ عرب امارات میں کروانا پڑا۔ پاکستانی کرکٹ بورڈ نے کوشش کی تھی کہ بھارت کے میچز متحدہ عرب امارات اور باقی میچز پاکستان میں کروائے جا سکیں لیکن بھارت کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش اور سری لنکا نے بھی اس سے انکار کر دیا۔ متحدہ عرب امارات میں نہ کھیلنے کی وجہ شدید گرمی بتائی گئی اور ایسے میں یہ بھی بھلا دیا گیا کہ 2018ء کا ٹورنامنٹ تقریباً انہی دنوں میں متحد عرب امارات کے میدانوں میں ہی منعقد کیا گیا تھا۔
سپر فور مرحلے سے پہلے کولمبو میں شدید بارش کی پیش گوئیاں تھیں اور ہر کسی کی خواہش تھی کہ میچز کسی ایسے شہر میں منتقل کر دیے جائیں جہاں بارش کا امکان کم ہو۔ لیکن ایشین کرکٹ کونسل اور خاص طور پر جے شاہ نے نہ ماننا تھا اور نہ وہ مانے۔ البتہ سپر فور مرحلے میں بھارت پاکستان میچ کے لیے ریزرو ڈے ضرور رکھ دیا گیا۔ ایشیا کپ کے سپر فور مرحلے میں 6 میچز ہونا تھے اور ان میں سے 5 میں بارش کا امکان تھا لیکن ریزرو ڈے صرف ایک ہی میچ کے لیے رکھا گیا۔
یہ ایک عجیب و غریب فیصلہ تھا، جس پر بے شمار لوگوں نے تو حیرانی کا اظہار کیا لیکن اگر نہیں کیا تو کسی بھی کرکٹ بورڈ نے نہیں کیا۔ نہ ہی سری لنکا کرکٹ بورڈ نے کہ جو مشترکہ میزبان تھا، نہ ہی بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ نے کہ جن کے میچز کی اہمیت کو نظر انداز کیا گیا اور نہ ہی پاکستان کرکٹ بورڈ نے کہ جن کا آخری میچ اگر بارش کی نذر ہو جاتا تو بغیر کھیلے ہی ان کے فائنل میں پہنچنے کا کوئی امکان باقی نہ رہتا۔
یہ ٹورنامنٹ اپنے عجیب و غریب شیڈول، ایشین کرکٹ کونسل اور جے شاہ کی جانب سے من مانے فیصلوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا اور اب ورلڈکپ میں چند ہفتے ہی باقی رہ گئے ہیں۔ اس ٹورنامنٹ سے لگ یہی رہا ہے کہ ٹورنامنٹ میں شریک پانچ ٹیموں میں سے بھارتی کرکٹ ٹیم ورلڈکپ کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ بھارت کو اس ٹورنامنٹ کے دوران صرف ایک شکست کا سامنا کرنا پڑا جب بنگلہ دیش کے خلاف ایک غیر اہم میچ میں بھارتی ٹیم نے اپنے اہم کھلاڑیوں کو آرام دینے کا فیصلہ کیا۔ بھارتی بیٹنگ کے بارے میں تو کبھی بھی کسی کو شک نہیں رہا لیکن اس وقت بھارتی فاسٹ باؤلنگ اور ساتھ ہی ان کے اسپنرز بھی بھرپور فارم میں دکھائی دے رہے ہیں اور لگ یہی رہا ہے کہ بھارتی ٹیم سیمی فائنل تک تو آرام سے پہنچ جائے گی۔
سری لنکن ٹیم اس ٹورنامنٹ میں فائنل سے قبل عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرتی نظر آئی۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کو شکست دینے کے ساتھ بھارت کے ساتھ گروپ میچ میں عمدگی سے مقابلہ کیا لیکن فائنل کا دباؤ برداشت نہ کر پائے۔ نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل سری لنکن ٹیم ایک اچھا یونٹ ہے لیکن سری لنکا کا سیمی فائنل تک پہنچنا کافی مشکل لگتا ہے۔ سری لنکن ٹیم کے پاس اچھے اسپنرز تو موجود ہیں لیکن ان کے بیٹسمین شاید ایسی کارکردگی نہ دکھا سکیں جو ٹیم کو 6، 7 میچز جتواسکے۔
بنگلہ دیش کی ٹیم میں سب سے زیادہ بہتری ان کی فاسٹ باؤلنگ میں آئی ہے جو دنیائے کرکٹ کی باقی بڑی ٹیموں کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن بنگلہ دیشی بیٹنگ ورلڈکپ میں ٹیم کو بس ایک دو میچز ہی جتوا سکتی ہے، اس سے زیادہ کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
افغانستان کی ٹیم ایشیا کپ کے پہلے مرحلے سے ہی باہر ہوگئی لیکن افغان اسپنرز کو نظر انداز کرنا کسی بھی بڑی ٹیم کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ 2019ء کے ورلڈکپ میں بھی پاکستان اور بھارت جیسی ٹیموں کو افغانستان کے خلاف میچ جیتنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
پاکستانی ٹیم ایشیا کپ میں فیورٹ کے طور پر پہنچی تھی اور انڈیا کے خلاف پہلے میچ میں پاکستانی فاسٹ باؤلرز کی بہترین کارکردگی سے لگا تھا کہ پاکستانی ٹیم یہ ٹورنامنٹ جیت سکتی ہے۔ اس وقت پاکستانی ٹیم ورلڈکپ کے سیمی فائنل تک پہنچنے والی چار ٹیموں میں سے ایک ٹیم بھی لگ رہی تھی۔ لیکن بھارت ہی کے خلاف اگلے میچ میں سب کچھ بدل کر رہ گیا۔ پاکستان کے بہترین فاسٹ باؤلرز وکٹیں حاصل کرنا بھول گئے تو اسپنرز بھی کچھ نہ کر پائے۔ ایک بڑے ہدف کے تعاقب میں پاکستانی بیٹسمین کچھ ایسے لڑکھڑائے کہ ایک بڑے مارجن سے شکست ہوگئی۔
بھارتی ٹیم کے خلاف اس میچ میں شکست کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنے دو فاسٹ باؤلرز سے بھی محروم ہونا پڑا۔ نسیم شاہ اور حارث رؤف ان فٹ ہو کر سری لنکا کے خلاف میچ سے باہر ہوچکے تھے۔ سری لنکا کے خلاف پاکستانی ٹیم کو ان باؤلرز کی کمی شدت سے محسوس ہوئی جب سری لنکن بیٹسمینوں کو کوئی بھی باؤلر ہدف تک رسائی سے نہ روک سکا۔ باؤلرز کے ساتھ ساتھ اس میچ میں پاکستانی کپتان کی پلاننگ پر بھی بہت سے اعتراضات ہوئے۔ یہ اعتراض تو اس وقت بھی ہوئے تھے جب بھارت کے خلاف پہلے مرحلے کے میچ میں 4 وکٹیں جلدی گرالینے کے باوجود بھارتی ٹیم نے ایک بڑا سکور کھڑا کر دیا تھا۔
پاکستانی اسپنرز وکٹیں لینا بھول گئے ہیں اور پاکستانی کپتان فاسٹ باؤلرز کا استعمال۔ ایسے میں مڈل اوورز میں کسی بھی بیٹسمین کو روکنا کیسے ممکن ہو۔ ایشیا کپ میں نیپال کے علاوہ ہر میچ میں پاکستانی باؤلرز درمیانے اوورز میں وکٹ حاصل کرنے میں ناکام ہی نظر آئے۔ یہی پاکستان کے لیے ورلڈکپ میں بہت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔
خبریں یہی ہیں کہ شاید نسیم شاہ اپنی فٹنس کے باعث ورلڈکپ کے لیے دستیاب نہیں ہوں گے تو ایسے میں پہلے دس اوورز کے دوران وکٹ حاصل کرنا بھی مسئلہ بن سکتا ہے۔ شاہین آفریدی وائٹ بال کرکٹ کے پہلے اوور میں اکثر وکٹ حاصل کر جاتے ہیں لیکن اگر یہ وکٹ نہ مل پائے تو اس کا ان پر کافی منفی اثر ہونے لگا ہے۔ شاہین وکٹ کے حصول کے لیے کوششیں شدید کر دیتے ہیں اور ایسے میں بیٹسمین بھرپور رنز بٹور سکتے ہیں۔
دوسری طرف بیٹنگ کی بات کریں تو پچھلے 3، 4 سال میں پاکستانی ٹیم کا انحصار اپنے ٹاپ تھری پر رہا ہے جو ون ڈے کرکٹ میں پاکستان کی جانب سے بننے والے رنز میں سے تقریباً 58 فیصد رنز بنا رہے تھے۔ لیکن اس سال کے آغاز میں نیوزی لینڈ کے خلاف 3 سنچریاں بنانے والے فخر زمان، افغان سیریز سے ہی آؤٹ آف فارم ہیں اور اس کا باقی بیٹسمینوں پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ بابر اعظم بھی نیپال کے خلاف سنچری کے بعد کچھ خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے۔ پاکستان کے لیے مثبت بات افتخار اور رضوان کی اچھی فارم ہے لیکن انہیں اچھے آغاز کی ضرورت ہے۔
پاکستانی ٹیم اب بھی ورلڈکپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر سکتی ہے لیکن اس کے لیے تمام کھلاڑیوں کو عمدہ کھیل پیش کرنا ہوگا اور کپتان اور ٹیم انتظامیہ کو اپنی اپروچ مثبت رکھنی ہوگی۔ سری لنکا کے خلاف حالیہ ٹیسٹ سیریز میں جس مثبت اپروچ ’دی پاکستان وے‘ کا وعدہ کیا گیا تھا، اس کا مظاہرہ ٹیسٹ کرکٹ کے ساتھ ساتھ ون ڈے کرکٹ میں بھی دکھانا ہوگا۔
ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔