صحت

دماغی بیماری الزائمر میں خلیات کیسے ختم ہوتے ہیں؟ سائنسدانوں نے پتا لگا لیا

الزائمر ایسا مرض ہے جس کا ابھی تک علاج دریافت نہیں کیا جاسکا ہے اور یہ آہستہ آہستہ مریض کو موت کے منہ کی جانب دھکیل دیتا ہے۔

برطانیہ اور بیلجیئم کے سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے یہ جان لیا ہے کہ دماغی تنزلی کی بیماری ’الزائمر‘ میں دماغی خلیے کیسے ختم ہوتے ہیں۔

الزائمر ایسا مرض ہے جس کا ابھی تک علاج دریافت نہیں کیا جاسکا ہے اور یہ آہستہ آہستہ مریض کو موت کے منہ کی جانب دھکیل دیتا ہے۔

یہ مرض دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے، یادداشت ختم ہوجاتی ہے اور ایک خاص قسم کا پروٹین اسے متحرک کرنے کا باعث بنتا ہے۔

الزائمر کی بیماری کے دوران دماغی خلیات کیسے ختم ہوتے ہیں یہ کئی دہائیوں سے ایک معمہ اور سائنسی بحث رہی ہے۔

یونیورسٹی کالج لندن میں برطانوی ڈیمینشیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور بیلجیئم میں کے یو یو لیون کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم اس معمے کو حل کرنے کے لیے کئی سالوں سے تحقیق کر رہی تھی۔

سائنس نامی طبی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں اب انکشاف ہوا ہے کہ سائنسدانوں نے یہ جان لیا ہے کہ ’الزائمر‘ کی بیماری کے دوران مریض کے دماغی خلیے کیسے ختم ہوتے ہیں۔

جریدے میں سائنسدانوں نے بتایا کہ دماغ میں بننے والے غیر معمولی پروٹین کا تعلق ’نیکروپٹوس‘ نامی خلیے سے ہے جو بیماری کے دوران خود کو ختم کرنے صلاحیت رکھتا ہے۔

سائنسدانوں نے اس دریافت کو ’دلچسپ‘ قرار دیا ہے جو مستقبل میں اس بیماری کے علاج کے لیے پیش رفت میں فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔

الزائمر میں مبتلا مریضوں کی یادداشت وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہوجاتی ہے، اس بیماری کی علامات کچھ یہ ہیں: تازہ باتیں بھول جانا، ڈرائیونگ کے دوران راستے بھول جانا، پسندیدہ مشاغل میں دلچسپی ختم ہوجانا، سونے میں مشکل پیش آنا، بولنے یا لکھنے میں دشواری، مزاج یا شخصیات میں بدلاؤ آنا وغیرہ۔

الزائمر میں مبتلا مریضوں کے دماغ میں امائلائیڈ اور ٹاؤ نامی غیر معمولی پروٹین شامل ہوتے ہیں۔

لیکن سائنسدان ابھی تک یہ سمجھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ الزائمر بیماری میں مبتلا لوگوں کے دماغوں میں امائلائیڈ اور ٹاؤ نامی غیر معمولی پروٹین کا جمع ہونا خود بیماری کی نشوونما سے کس طرح جڑا ہوا ہے۔

اسی حوالے سے سائنسدان کہتے ہیں کہ ہمارے دماغ میں پائے جانے والے خلیوں یا نیورونز کے درمیان خالی جگہوں پر غیر معمولی پروٹین امائلائیڈ بننا شروع ہو جاتا ہے، جس سے دماغ میں سوزش ہوتی ہے، جس کے خلاف نیورون اپنا دفاع کرتا ہے اور ان کی اندرونی کیمسٹری بدلنا شروع ہو جاتی ہے۔

اس کے نتیجے میں ٹاؤ نامی پروٹین ظاہر ہوتی ہیں اور دماغ کے خلیے ایک مخصوص قسم کا مالیکیول پیدا کرنا شروع کرتے ہیں جسے ایم ای جی 3 کہا جاتا ہے، جو نیکروپٹوسس سے موت کا باعث بنتا ہے، (نیکروپٹوسس ان طریقوں میں سے ایک ہے جو ہمارے جسم میں پرانے خلیات کو ختم کرکے نئے خلیات بنانے کے لیے کام کرتا ہے)۔

اہم پیشرفت

برطانیہ کے ڈیمنشیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے محقق پروفیسر بارٹ ڈی اسٹروپر نے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کو بتایا کہ یہ ایک بہت اہم اور دلچسپ دریافت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’پہلی بار ہمیں اس بات کا اشارہ ملا ہے کہ الزائمر کی بیماری میں نیورون کیسے اور کیوں ختم ہوتے ہیں، 30 سے 40 سالوں کے دوران بہت سی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں لیکن کوئی بھی اس حوالے سے نشاندہی نہیں کر سکا ہے۔‘

بیلجیئم اور برطانیہ کے سائنسدانوں نےانسانی دماغ کے خلیات کو جینیاتی طور پر تبدیل شدہ چوہوں کے دماغوں میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا تاکہ غیر معمولی پروٹین امائلائیڈ کی ضرورت سے زیادہ مقدار پیدا کی جا سکے۔

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ الزائمر کی بیماری نیکروپٹوسس کے ذریعے بڑھتی ہے (جو ایک خاص قسم کا نیورون ہے جو خود کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے)

رپورٹ کے مطابق جو لوگ الزائمر کا شکار ہوتے ہیں وہ دماغی خلیات سے محروم ہوتے ہیں اور ایمائلائیڈ اور ٹاؤ نامی غیر معمولی پروٹین کی افزائش شروع ہوجاتی ہے جو الزائمر نامی بیماری کی علامات کا باعث بنتے ہیں۔

ایمائلائیڈ ایسا پروٹین ہیں جو ہماری جسم اور دماغ میں پائے جاتے ہیں لیکن الزائمر کی بیماری کے دوران یہ ایمائلائیڈ ایک دوسروں کے ساتھ مل جاتے ہیں (یعنی گچھا بن جاتا ہے) اور بعد میں یہ دماغ میں plaques بنانے کا سبب بنتے ہیں جو خطرے کی علامت ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق ایک بار جب محققین دماغی خلیات کو necroptosis کے ذریعے ختم ہونے والے خلیات میں ایم ای جی 3 مالیکیولز کے کردار کو سمجھ لیا، تو وہ ایم ای جی 3 مالیکیولز کو اپنے کام کو انجام دینے سے روکنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

پروفیسر بارٹ ڈی اسٹروپر نے کہا کہ یہ دریافت الزائمر کے علاج کے لیے نئی ادویات بنانے میں اہم پیشرفت ثابت ہوسکتی ہے تاہم اس تحقیق میں سالوں لگ سکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف ایڈنبرا سے تعلق رکھنے والی پروفیسر تارا اسپائرز جونز اور برٹش نیورو سائنس ایسوسی ایشن کی صدر نے اس دریافت کو مثبت پیش رفت قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ’الزائمر کی تحقیق میں بنیادی خلا میں سے ایک کو دور کرتا ہے، یہ دلچسپ نتائج ہیں، اس کے ذریعے ہمیں مستقبل میں تحقیق میں مدد ملے گی۔‘

تاہم انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’اب بھی بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے‘، یہ جاننے سے پہلے کہ آیا اسے الزائمر کے مؤثر علاج کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔’

الزائمر ریسرچ یوکے سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سوسن کوہلہاس نے کہا کہ نتائج ’انتہائی دلچسپ‘ ہیں لیکن ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ دریافت اہم ہے کیونکہ یہ الزائمر کی بیماری میں خلیوں کے ختم ہونے کے بعد پیش ہونے والے نئے میکانزم کی طرف اشارہ کرتی ہے جسے ہم پہلے نہیں سمجھ سکتے تھے اور اس دریافت سے الزائمر کے نئے علاج کے لیے راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

مینتھول سونگھنے سے الزائمر کے مرض میں کمی کا انکشاف

دن میں زیادہ وقت تک سونا الزائمر کی ابتدائی نشانی ہوسکتی ہے، تحقیق

جینیاتی بلڈ پریشر اور کولیسٹرول سے ’الزائمر‘ ہونے کا انکشاف