پاکستان

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آج بطور چیف جسٹس آف پاکستان حلف اٹھائیں گے

سپریم کورٹ میں تقسیم کے تاثر کو ختم کرنا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنے دور میں درپیش سب سے بڑا چیلنج ہو سکتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آج پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے، ان کی تعیناتی کے پیشِ نظر ایک مثبت تاثر موجود ہے کہ اس سے سپریم کورٹ میں تقسیم کے تاثر کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق متعدد اعلیٰ افسران نے اس حوالے سے گزشتہ چند روز سے جاری بات چیت کے دوران اعتراف کیا کہ سب کو جلد ہی سپریم کورٹ میں اتحاد نظر آئے گا۔

یہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنے دور میں درپیش سب سے بڑا چیلنج ہو سکتا ہے کیونکہ چیف جسٹس آف پاکستان کو عدالت کو متحد کرنا اور عدالت کی ساکھ کو بحال کرنا ہو گا تاکہ کوئی عدالت کے فیصلوں پر انگلی نہ اٹھا سکے۔

عوامی اہمیت کے آئینی معاملات کی سماعت کے لیے ’ہم خیال ججوں‘ پر مشتمل ایک مخصوص بینچ کی تشکیل اعلیٰ عدلیہ پر تنقید کا سبب بن چکی ہے، یہ عمومی احساس پایا جاتا ہے کہ عدالتی کارروائی کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے بینچوں کی تشکیل میں سینئر ججوں کو شامل نہیں کیا جاتا۔

آج بطور چیف جسٹس تعیناتی کے بعد کل بروز پیر کو پہلے روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف درخواست کی سماعت کریں گے، یہ ایک بل ہے جو عوامی اہمیت کے حامل آئینی معاملات پر سینیئر ججز پر مشتمل تین رکنی کمیٹی کے ذریعے بینچز کی تشکیل کا پابند کرتا ہے۔

حال ہی میں عہدے سے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 ججوں پر مشتمل بینچ نے 13 اپریل کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے نفاذ کو معطل کر دیا تھا۔

قبل ازیں جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کمیشن نے ایک بیان میں ایک بینچ کی تشکیل پر سوال اٹھایا تھا جو آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی تحقیقاتی باڈی کے خلاف 6 درخواستوں کی سماعت کر رہا تھا، بیان میں کہا گیا تھا کہ اس معاملے کی سماعت کرنے والا بینچ مذکورہ معطل شدہ ایکٹ کے تحت مطلوبہ ججوں کی 3 رکنی کمیٹی کے تحت تشکیل نہیں دیا گیا۔

کمیشن نے بیان میں کہا تھا کہ آڈیو کمیشن کو چیلنج کرنے والی درخواستیں ججوں کی کمیٹی کی تشکیل کردہ بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئیں، لہذا ان درخواستوں کی سماعت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ کمیٹی یہ طے نہیں کر لیتی کہ کون سا بینچ ان پر سماعت کرے گا۔

3 جون کو جسٹس قاضٰی فائز عیسیٰ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات کی سماعت کرنے والے 9 ججوں کے بینچ میں نہ بیٹھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ قانون کی معطلی کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتے، جب تک عدالت پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بارے میں فیصلہ نہیں کرتی وہ بنچوں میں نہیں بیٹھیں گے، نتیجتاً جسٹس قاضٰی فائز عیسیٰ نے عدالتی سماعتوں کے بجائے چیمبر ورک کرنے کا انتخاب کیا۔

سب سے بڑا چیلنج

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سینیئر وکیل نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کو بطور چیف جسٹس سب سے بڑا امتحان اس وقت درپیش ہوگا جب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 روز کے اندر عام انتخابات سے متعلق تنازع سپریم کورٹ پہنچے گا۔

علاوہ ازیں انہیں حکومت کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بھی برقرار رکھنا ہو گی، صدر عارف علوی الیکشن کمیشن سے کہہ چکے ہیں کہ وہ ایک ہی روز عام انتخابات کے انعقاد کے لیے سپریم کورٹ سے رہنمائی طلب کرے۔

فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمے کی زیر التوا سماعت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وکیل نے کہا کہ یہ کیس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا انفرادی چیلنج نہیں بلکہ پوری عدالت کا ہے اور چونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے ہی ایک مقدمے میں اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہیں اس لیے وہ بینچ میں بھی بیٹھ سکتے ہیں۔

اگست 2015 میں فوجی عدالتوں کے حق میں دیے گئے فیصلے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اختلاف کیا تھا، اختلافی نوٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ 21 ویں ترمیم فوج کی جانب سے شہریوں پر مقدمہ چلانے کے جواز پر پورا نہیں اترتی، ان مقدمات کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت چلایا جانا چاہیے، جس پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں دہشت گردی کو روکنے میں مدد ملے گی اور یہ دہشت گردوں کی سزا بھی یقینی بنائے گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی سپریم کورٹ کے امور سرانجام دیے جانے کے حوالے سے سینیئر وکیل نے کہا کہ وہ معاملات کو واضح طور پر سمجھتے ہیں کیونکہ وہ 2009 سے 2014 تک بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے، یہ ایک انتہائی حساس دور تھا، جب بلوچستان میں فوجی آپریشن جاری تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے ایک اور چیلنج یہ بھی ہوگا کہ 56 ہزار سے زائد زیرِالتوا مقدمات سے کیسے نمٹا جائے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی میراث

وکیل نے کہا کہ جسٹس عمر عطا بندیال بہت ہی شائستہ اور نرم رویہ رکھتے تھے لیکن قائدانہ صلاحیت ان کی خاصیت نہیں تھیں، ان کے انتظامی فیصلوں پر مبینہ طور پر ان کے سیاسی تصورات اثرانداز ہوتے تھے۔

دریں اثنا بطور چیف جسٹس اپنے آخری روز جسٹس عمر عطا بندیال نے عدالتی عملے کو کمرہ عدالت سے ملحقہ سپریم کورٹ کے ہال میں مدعو کیا اور ان سے فرداً فرداً ملے، انہوں نے کہا کہ انہوں نے بطور چیف جسٹس اپنے دور میں کسی کے خلاف کوئی منفی خیال نہیں پالا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معاشی بحران کی وجہ سے آئندہ 2 سے 3 برس مشکل ہوسکتے ہیں، انہوں نے صبر کی اہمیت کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول بھی سنایا، گفتگو کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال کو وقفہ کرنا پڑا کیونکہ وہ اپنے آنسو نہیں روک پا رہے تھے۔

نواز شریف کی واپسی سے قبل لندن میں مسلم لیگ (ن) کی قانونی ٹیم سے مشاورت

پالتو کتے کے انتقال کے بعد دعا کی درخواست، سوشل میڈیا صارفین کی میرب علی پر تنقید

پاکستان کیلئے سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن کوغیرقانونی لابنگ، حکام پر دباؤ ڈالنے پر سزا