دنیا

لیبیا میں سیلاب کے بعد ایمرجنسی ٹیمیں لاپتا ہزاروں افراد کی تلاش میں سرگرداں

درنہ شہر میں سیلاب سے اب تک کم از کم 4ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، لوگ بے یارومدد گار ملبے کے ڈھیر میں اپنے پیاروں کو تلاش کررہے ہیں۔

لیبیا کے شہر درنہ میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے بعد ایمرجنسی ٹیمیں ابھی تک لاپتا ہزاروں افراد کی تلاش میں سرگرداں ہیں جہاں سیلاب میں اب تک کم از کم 4ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سیلاب کے بعد آنے والے پانی کے تیز بہاؤ کے سبب اتوار کو دیر گئے دو ڈیم پھٹ گئے تھے اور درنہ شہر سیلاب کی نذر ہو گیا جس میں ہزاروں گھر زمین بوس ہو گئے اور ہزاروں لوگ بحیرہ روم میں بہہ گئے۔

اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر نے بتایا کہ دریا کے دونوں اطراف کے وسطی علاقے عام طور پر سال کے اس وقت خشک ہوتے ہیں لیکن اس وقت ایسا لگتا ہے کہ وہاں سے کوئی رولر ہے تھا جس نے درختوں اور عمارتوں کو اکھاڑ کر کر پھینک دیا ہے۔

سیلاب سے زندہ جانے والے ایک زخمی نے بتایا کہ چند سیکنڈوں میں ہی پانی کی سطح بلند ہو گئی اور اس سے قبل میں اور میری والدہ ایک خالی عمارت میں داخل ہونے میں کامیاب ہو پاتے، پانی کا بہاؤ ہمیں بہا لے گیاتایا کہ وہ رات گئے کی آزمائش میں اپنی ماں کے ساتھ بہہ گیا۔

بن غازی میڈیکل سینٹر میں داخل ایک نامعلوم شخص نے اس حوالے سے بتایا کہ جیسے جیسے ہم عمارت کی چوتھی منزل کی جانب بڑھتے جا رہے تھے، پانی کی سطح بھی ہمارے ساتھ بلند ہو رہی تھی اور یہ دوسری منزل تک پہنچ چکا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم چیخیں سن سکتے تھے، میں نے کھڑکی سے دیکھا کہ کاریں اور لاشیں پانی میں بہہ رہی ہیں، یہ صورتحال ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی لیکن ہمیں یہ لمحہ ایک سال جتنا طویل محسوس ہوا۔

سینکڑوں لاشوں کے تھیلے اب درنہ کی کیچڑ سے بھری گلیوں میں قطار در قطار رکھے ہوئے ہیں جن کی اجتماعی تدفین کی جائے گی، لوگ بے یارومدد گار ملبے کے ڈھیر میں اپنے پیاروں کو تلاش کررہے ہیں۔

اے ایف پی کے نمائندے نے بتایا کہ ایک ٹوٹے ہوئے گھر میں سے امدادی ٹیم نے پانی نکالا تو اس میں ایک عورت نے اپنے بے جان بازوؤں میں اپنے مردہ بچے کو تھاما ہوا تھا۔

ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے لیبیا کے وفد کے سربراہ یان فریڈز نے بتایا کہ سات میٹر(23 فٹ) بلند اونچی لہروں نے کئی عمارتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا، کئی گھرانے لاپتہ ہیں، لاشیں جابجا بکھری پڑی ہیں اور ہزاروں گھر تباہ ہو چکے ہیں۔

معجزاتی طور پر سیلاب کی زد میں آنے کے باوجود زندہ بچ جانے والے 29سالہ عبدالعزیز بوسمیا کے مطابق ایک لاکھ نفوس پر مشتمل شہر کی آبادی کا کم از کم دسواں حصہ اس جان لیوا سیلاب میں زندگی کی بازی ہار گیا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے دوستوں اور پیاروں کو کھو دیا، وہ سب یا تو مٹی کے نیچے دب گئے ہیں یا سیلاب کے پانی سے سمندر میں بہہ گئے ہیں۔

یہ سیلاب سمندری طوفان کی طاقت کے حامل طوفان ڈینیئل کی وجہ سے آیا تھا جہاں لیبیا میں 2011 میں ملک کے آمر معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد صورتحال مسلسل ابتر ہوتی جا رہی ہے اور ملک کا انفرا اسٹرکچر بھی خراب ہوتا گیا۔

اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم کے سربراہ پیٹری ٹالاس نے کہا کہ اگر جنگ زدہ ملک میں قبل از وقت وارننگ اور ایمرجنسی مینجمنٹ سسٹم صحیح طریقے سے کام کرتا تو بہت سی لوگوں کو مرنے سے بچایا جا سکتا تھا۔

ٹالاس نے کہا کہ اگر بہتر ہم آہنگی ہوتی تو اس حوالے سے انتباہ جاری کر سکتے تھے اور ایمرجنسی انتظامی دستے لوگوں کو نکالنے میں کامیاب ہو سکتے تھے اور ہم انسانی جان کو پہنچنے والے اس نقصان سے بچ سکتے تھے۔

ڈیرنا تک رسائی بھی مشکل مرحلہ ہے کیونکہ سڑکیں اور پل تباہ ہو چکے ہیں اور بجلی اور فون لائنیں اکثر علاقوں تک منقطع ہو گئی ہیں جہاں کم از کم 30ہزار لوگ اب بے گھر ہو چکے ہیں۔

موسمیاتی ماہرین نے اس تباہی کو لیبیا کے زوال پذیر انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ قرار دیا۔

طوفان ڈینیئل نے اس سے قبل ترکی، بلغاریہ اور یونان کو نشانہ بنایا تھا اور ان ممالک کے مختلف علاقوں میں آنے والے سیلاب سے کم از کم 27 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

’دنیا بھر میں 30 کروڑ سے زائد بچے خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں‘

عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال، کئی نیب ترامیم کالعدم قرار

’اب پاکستان ٹیم کی باؤلنگ کی دھاک اور طنطنہ ہوا ہوچکا ہے‘