پاکستان بار کونسل نئے چیف جسٹس سے قانونی ضابطوں کے احترام کی خواہاں
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید نے امید ظاہر کی ہے کہ نامزد چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ عہدہ سنبھالنے کے بعد ججوں کے خلاف زیر التوا شکایات کا فیصلہ کریں گے اور آئینی معاملات کا قانون اور عدالتی روایات کے مطابق فیصلہ کریں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بار کونسل نے اس امید کا اظہار بھی کیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بطور چیف جسٹس کے دور میں بینچ بھی شفاف طریقے سے تشکیل دیے جائیں گے۔
ہارون الرشید کی جانب سے ان خیالات کا اظہار 16 ستمبر کو سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے اعزاز میں منعقد ہونے والے روایتی الوداعی فل کورٹ ریفرنس میں کی گئی ایک تقریر کے دوران کیا جانا تھا لیکن اس تقریب کا انعقاد نہیں کیا گیا، اس لیے پاکستان بار کونسل نے اس تقریر کو ایک پریس ریلیز کی صورت میں جاری کردیا۔
انہوں نے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کو مبینہ بے مثال فیصلوں پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا اور کہا کہ وہ فیصلے تاریخ میں اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیے جائیں گے۔
پاکستان بار کونسل کے عہدیدار نے بار ایسوسی ایشنز کو نظر انداز کرنے پر بھی سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کو تنقید کا نشانہ بنایا، درحقیقت اعلیٰ عدلیہ نے کبھی بھی وکلا کہ اعلیٰ باڈی پاکستان بار کونسل سے اہم معاملات پر مشاورت نہیں کی اور جب بھی پاکستان بار کونسل نے چیف جسٹس سے ملنے کا ارادہ ظاہر تو انہیں بتایا گیا کہ عدالت عظمیٰ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے براہ راست رابطے میں ہے۔
انہوں نے اس بات پر افسوس کا بھی اظہار کیا کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ 14 مئی مقرر کرتے ہوئے خیبرپختونخوا اسمبلی کو اس معاملے میں نظر انداز کردیا، نہوں نے کہا کہ اس طرح کے فیصلے سے اعلیٰ عدلیہ کا وقار مجروح ہوا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ آنے والے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے وقار کو بحال کریں گے اور ان آئینی معاملات کا بھی جائزہ لیں گے جن کی مبینہ طور پر غلط تشریح کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ وکلا برادری کو توقع ہے کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 نافذ ہو جائے گا، کیونکہ جس طرح اس قانون کے نفاذ کو معطل کیا گیا تھا، عدالتی تاریخ میں اس طرح کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کی معطلی آمرانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اس قانون سازی کی منفرد بات یہ ہے کہ وزارت قانون نے اسے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بار کونسلز کی جانب سے منظور کی گئی متعدد قراردادوں کی روشنی میں تیار کیا ہے۔
ہارون الرشید نے الزام لگایا کہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس نے ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی بھی کی، آڈیو لیکس سے متعلق حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ انکوائری کمیشن کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا جب کہ اس سے مفادات کے ٹکراؤ کے خدشات پیدا ہوئے کیونکہ آڈیو ریکارڈنگ میں سے ایک مبینہ آڈیو کا تعلق ان کی ایک قریبی رشتہ دار سے ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔
انہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ نامزد چیف جسٹس ان ججوں کے خلاف آئین کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی شروع کریں گے جو آڈیو کمیشن کے قیام کے خلاف فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے۔