نقطہ نظر

سفرنامہ ہسپانیہ: ایک رات اشبیلیہ میں۔۔۔ (چھٹی قسط)

مسلمانوں کے دور میں اس شہر کو عروج حاصل ہوا اور یہ ترقی کی منزلیں طے کرتا گیا۔ اس شہر کو اشبیلیہ کا نام بھی عربوں نے دیا جسے بعد میں سیویا کردیا گیا۔

اس سلسے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


ہمیں غرناطہ کے بس اسٹیشن پر ڈیڑھ گھنٹہ گزر چکا تھا اور اگلی بس کے لیے مزید ایک گھنٹہ انتظار کرنا تھا۔ بس اسٹیشن پر کافی گہما گہمی تھی۔ بڑی تعداد میں سیاح اس تاریخی شہر کو دیکھنے کے لیے آرہے تھے اور بس اسٹیشن پر موجود مختلف ٹور کمپنی کے بوتھ پر موجود ہسپانوی خواتین سیاحوں کو ٹور پیکجز دینے میں مصروف تھیں۔

میرے ساتھی عبد اللہ شاہ صاحب حسبِ روایت گھر والوں کے ساتھ فون پر گفتگو کرنے میں مصروف تھے جبکہ افتخار صاحب مجھ سے اگلے سفر کے بارے میں معلومات لے رہے تھے۔ میں نے افتخار صاحب کو تفصیلات بتانا شروع کیں۔

’ہمارا سفر اب اشبیلیہ (Seville) کی طرف ہے۔ اشبیلیہ اندلس حکومت کے صوبائی دارالحکومت کے ساتھ ساتھ اُس دور میں مسلمانوں کی سلطنت کا دوسرا بڑا شہر تھا۔ یہ شہر قرطبہ مسجد کے قریب بہنے والے دریائے الکبیر کے دونوں کناروں پر تقریباً دو ہزار سال سے آباد ہے۔ رومنز نے یہاں کافی عرصے تک حکومت کی۔ لیکن مسلمانوں کے دور میں اس شہر کو عروج حاصل ہوا اور یہ ترقی کی منزلیں طے کرتا گیا۔ اس شہر کو اشبیلیہ کا نام بھی عربوں نے دیا۔ جسے بعد میں عیسائیوں نے سیویا کردیا۔ جب قرطبہ شہر کا زوال ہوا اور اس کی مرکزیت ختم ہوئی اور اندلس کی سلطنت کئی حصوں میں بٹ گئی تب اشبیلیہ ہی وہ واحد شہر تھا جو سب سے امیر تھا۔ اس شہر سے مسلمانوں کی حکومت، عیسائی حکمران فرینڈو سوم نے 1248ء میں ختم کردی تھی۔

’اشبیلیہ کا تاریخی محل اور جامع مسجد دیکھنے کے قابل ہے۔ اشبیلیہ کی تاریخی مسجد سلطان ابو یعقوب یوسف نے 1172ء میں تعمیر کروائی تھی، آج کل یہ مسجد چرچ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ہم انشااللہ کوشش کریں گے کہ ان یادگاروں کو قریب سے دیکھ سکیں لیکن مجھے نہیں لگ رہا کہ دن کی روشنی میں ہم ان یادگاروں کا نظارہ کرپائیں گے‘، میں نے افتخار صاحب کو اپنے اگلے سفر سے متعلق مختصر تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔

’اچھا کیوں؟ ہمارے پاس کل کا دن تو ہے۔ ہم کل صبح ان مقامات کو دیکھ کر بارسلونا کے لیے روانہ ہوجائیں گے؟‘ افتخار صاحب نے قدرے پریشانی میں مجھ سے سوال کیا۔

’نہیں، ہمارے پاس اب صرف آج کی رات کے چند گھنٹے ہیں اور کل صبح 7 بجے انشااللہ ہمیں بارسلونا کے لیے فلائٹ لےکر نکلنا ہے‘۔

’اوہ اچھا یعنی ہم اشبیلیہ دیکھنے کے لیے مختص تین گھنٹے اپنی غلطی کی وجہ سے ضائع کرچکے ہیں‘، افتخار صاحب نے منہ بناکر کہا۔

اس کے بعد ہم مقررہ پوائنٹ پر اپنی بس کی جانب بڑھ گئے۔ شاندار سڑکیں، طویل اور بلند فلائی اوورز، ہلکی ہلکی بارش اور ہر طرف سر سبز باغات۔ غرناطہ شہر ہمیں الوادع کہہ رہا تھا۔

ہماری بس دریائے شنیل کے کنارے کنارے آہستہ آہستہ سفر کررہی تھی۔ ہم نے غرناطہ کی فضاؤں میں دو دن گزارے لیکن ہماری پیاس نہ بجھ سکی۔ نہ تسکین ملی اور نہ ہی آنکھوں کو ٹھنڈک۔ یہاں مہینوں قیام کرکے ہی جستجو کی اس پیاس کو بجھایا جاسکتا ہے۔ اس کیفیت میں رہتے ہوئے میرے ذہن میں علامہ اقبالؒ کے یہ اشعار گونج رہے تھے۔

غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے، و لیکن
تسکینِ مسافر نہ سفر میں نہ، حضر میں
دیکھا بھی دکھایا بھی، سنایا بھی سُنا بھی
ہے دل کی تسلی نہ نظر میں، نہ خبر میں

ہماری بس غرناطہ سے اشبیلیہ کے لیے شاہراہ اے 92 پر رواں دواں تھی۔ غرناطہ سے اشبیلیہ تک ہمارا سفر تقریباً 290 کلومیٹر بنتا ہے۔ بس کے اس سفر سے ہم نے راستے میں گاؤں گاؤں کی سیر کی۔ ہم تقریباً دو گھنٹے میں اشبیلیہ کے مضافات میں داخل ہوگئے تھے۔

سورج آہستہ آہستہ آسمان پر اپنا قبضہ چھوڑ رہا تھا۔ اشبیلیہ شہر ایک خوبصورت اور میدانی علاقے پر مشتمل شہر تھا۔ یہاں جدید شہر کی تمام سہولیات موجود تھیں۔ شہر کے عین وسط میں موجود بس اسٹیشن پر ہماری بس رک گئی۔ ہم بس سے نکل کر باہر ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف روانہ ہوئے۔ سامنے اشبیلیہ کا تاریخی شہر اور تاریخی گولڈن مینار نظر آرہا تھا۔

ٹیکسی شہر کے مختلف علاقوں سے گزرتے گزرتے شہر کے آخری کونے میں رُک گئی اور ہم دوسری منزل پر اپنے اپارٹمنٹ میں پہنچ گئے۔ اندر ایک خوبصورت ہسپانوی بوڑھی خاتون نے ہمیں ہسپانوی زبان میں’ ہولا’ کہہ کر خوش آمدید کہا اور اپنا سامان رکھنے سے پہلے رجسٹریشن کرنے کے لیے اپنی دستاویزات دکھانے کو کہا۔

دستاویزات کی تصدیق کے بعد اپنے کمرے میں شفٹ ہونے میں ہمیں کافی وقت لگا جبکہ باہر اشبیلیہ کے خوبصورت شہر پر اندھیرے نے اپنا قبضہ جما لیا تھا۔ اس لیے تھوڑی دیرتازہ دم ہونے، نماز پڑھنے اور آرام کرنے کے بعد تقریباً رات کے 9 بجے ہم نے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا تب تک اشبیلیہ مکمل طور پر پردہ کرچکا تھا۔

ہم شہر کی ویران سڑکوں پر مٹر گشت کررہے تھے۔ اس وقت سڑکیں بالکل ویران تھیں۔ باہر سڑکوں پر اسپین کے باقی شہروں کی طرح گہما گہمی نہ ہونے کے برابر تھی۔ لوگوں کی تعداد بھی کافی کم نظر آرہی تھی۔ شاید یہاں کے باسی بھی اشبیلیہ کو صرف ایک رات کے لیے منتخب کرنے پر ہم سے ناراض تھے۔

ہماری منزل اشبیلیہ کے خوبصورت مقامات میں نمایاں مقام رکھنے والی پلازہ ڈی ہسپانیہ کی خوبصورت بلڈنگ تھی۔ اشبیلیہ کی سڑکیں اس وقت ہلکی ہلکی بارش سے بھیگ چکی تھیں۔ ہماری ٹیکسی پارک ڈی ماریا لوئیسہ کی کار پارکنگ میں ہمیں اتار کر چلی گئی۔ ہمارے ساتھ چند جاپانی سیاح بھی پلازہ دی ہسپانیہ کی خوبصورتی دیکھنے کے لیے یہاں موجود تھے۔

پلازہ ڈی ہسپانیہ 50 ہزار مربع میٹر کے رقبے پر محیط ایک پرشکوہ عمارت ہے جس کی فنی تعمیر بھی مسلمانوں کی طرز تعمیر سے متاثر ہوکر کی گئی تھی۔ عمارت کو ایک نہر کے اردگرد تعمیر کیا گیا ہے جس میں دوپہر کے وقت سیاح کشتیوں میں سیر کرتے ہیں۔

یہ ایک خوبصورت سیاحتی مقام تھا۔ خوبصورت تاریخی عمارتیں، جگہ جگہ پر سیاحوں کے لیے قیام و طعام کی سہولتیں اور خوابیدہ ماحول یہاں پر دیر تک سیاحوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھتے ہیں۔ پلازہ ڈی ہسپانیہ کے ساتھ منسلک پارک ڈی ماریا لوئسیہ بھی دیکھنے کے قابل تھا۔ یہ پارک 1893ء میں بنایا گیا تھا جہاں کھجوروں، مالٹوں اور بحیرہ روم کے دیودار درختوں کی بہتات تھی۔

ہم پارک سے پلازہ ڈی ہسپانیہ کے مین گیٹ کی طرف روانہ ہوئے، ہمارے ساتھ ساتھ جاپانی سیاح بھی تھے۔ مین گیٹ پر پہنچے تو ایک بڑے تالے نے ہمارا استقبال کیا۔ دور دور تک نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ کافی دیر تک ہم گیٹ پر کسی فرد کا انتظار کرتے رہے۔ پھر کسی دوسرے گیٹ کے لیے پلازہ کی بلند عمارت کے ساتھ ساتھ پیدل واک شروع کردی لیکن ہمیں اس عمارت کا کوئی گیٹ کھلا نہ ملا اور نہ ہی کوئی بندہ ملا۔

مایوسی ہر سو پھیل گئی۔ تھکاوٹ سے بھی برا حال ہوچکا تھا اور اوپر سے بھوک کی شدت بھی ہمارا منہ دیکھ رہی تھی۔ اس لیے فیصلہ کیا کہ ٹیکسی کے ذریعے کوئی حلال ریسٹورنٹ تلاش کیا جائے۔

گوگل میپ نے قریب ایک حلال ریسٹورنٹ کی نشاندہی کی۔ جس کے بعد ہم ٹیکسی میں سوار ہوئے اور مراکشی ریسٹورنٹ پہنچ گئے۔ ریسٹورنٹ کے داخلی دروازے کے ساتھ ایک ٹیبل پر مراکشی خاندان عربی زبان میں خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ ہم ساتھ والی ٹیبل پر براجمان ہوگئے اور چکن اور گوشت کے باربی کیو کے ساتھ چاول کا آرڈر دیا۔

غرناطہ سے آنے کے بعد پیٹ بھر کر کھانے کے انتظار میں ہم ٹیبل پر بیٹھے اشبیلیہ کے سفر کے آغاز سے لےکر اب تک پیش آنے والے واقعات پر گپ شپ کررہے تھے۔ اتنے میں ویٹر نے ہمارے سامنے مراکشی طرز پر بنا ہوا سوپ رکھ دیا جوکہ واقعی مزے کا تھا۔ سوپ نوش کرنے کے بعد ہماری جان میں جان آگئی۔

چاول عربی اسٹائل میں بنائے گئے تھے جوکہ انتہائی لذیذ تھے لیکن جیسے ہی ایک چکن تکہ کی بوٹی منہ میں ڈالی تو اندازہ ہوا کہ یہاں پر بھی ہمارے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔ گوشت اور چکن باسی لگ رہا تھا جس کا ذائقہ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ عبد اللہ شاہ نے بھی مزید گوشت کھانے سے منع کیا اور مزید چاول کا آرڈر دےکر ہم نے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے پر اکتفا کیا۔

اپارٹمنٹ تک واپسی کا سفر خاموشی کے ساتھ گزرا کیونکہ کھانا ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے سب کا موڈ خراب ہوچکا تھا۔ ٹیکسی اب اشبیلیہ کے پرانے شہر کے ساتھ دریائے الکبیر کے کنارے سے گزررہی تھی اور ہمارے سامنے ایک بلند مینار تھا۔ میرے پوچھنے پر ڈرائیور نے بتایا کہ یہ ٹوری ڈل گرو یعنی گولڈن ٹاور ہے۔

گولڈن مینار کو مسلمانوں نے 1220ء میں دفاعی نقطہ نظر کے تحت تعمیر کیا تھا جس پر ہر وقت فوجی پہرا دار ہوتے تھے تاکہ دور سے دشمن کی آمد کا پتا چل سکے۔ اس کے سامنے دریائے الکبیر کی دوسری طرف بھی ایک مینار تھا جس کو سلور مینار کہا جاتا تھا لیکن بعد میں یہ منہدم ہوگیا اور اب اس کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔

زمانہ قدیم میں دونوں میناروں کے درمیان بڑی بڑی آہنی زنجیریں لگا دی جاتی تھیں تاکہ باہر سے آنے والے جہازوں کو روکا جاسکے۔ اس مینار کے بارے یہ بات بہت اہم ہے کہ جب کولمبس نے امریکا دریافت کیا اور وہاں سے بذریعہ سمندری جہازوں اور کشتیوں کے دولت کو اسپین منتقل کیا جانے لگا تو وہ اشبیلیہ میں اسی مقام پر اتاری جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جگہ گولڈن ٹاور کے نام سے مشہور ہوئی۔

کچھ دیر بعد ٹیکسی کا ڈرائیور ہمیں اپنے اپارٹمنٹ کے سامنے اتار چکا تھا اور کمرے میں جانے کے بعد جلد ہی نیند کی وادی کے مزے لوٹنے لگے۔

اشبیلیہ سے بارسلونا

صبح 5 بج 15 منٹ پر ہماری ٹیکسی اشبیلیہ کے ائیرپورٹ کی طرف گامزن تھی۔ دور سے اشبیلیہ کا سینٹ ماریہ چرچ نظر آرہا تھا۔ اس چرچ کوغرناطہ و قرطبہ کی طرح یہاں کی اُس دور کی جامع مسجد کو تبدیل کرکے بنایا گیا تھا۔ یہ مسجد سلطان أبو یعقوب یوسف نے 1172ء میں تعمیر کروائی تھی۔ 1248ء مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی اور عیسائی حکمران آئے تو تقریباً 250 سال تک مسجد کی ہی عمارت کو چرچ میں تبدیل کردیا تھا۔ پھر 1515ء میں مسجد کی عمارت کو منہدم کرکے اس کی جگہ سینٹ ماریہ چرچ تعمیر کیا گیا۔

ہم اس تاریخی مسجد و چرچ کے قریب سے گزرے۔ یہ ایک پُررونق علاقہ معلوم ہورہا تھا جہاں پر ٹرام اسٹیشن اور سیاحوں کے لیے تانگے و بھگیاں کھڑی تھیں۔ چونکہ صبح کا وقت تھا اس لیے اشبیلیہ کے باسی اور یہاں پر سیاح خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے اور ہماری ٹیکسی دریائے الکبیر کے ساتھ ایئرپورٹ کی جانب رواں دواں تھی۔

ڈرائیور سے میں نے سوال کیا کہ ’اس چرچ کے قریب ایک شاہی محل بھی ہے، وہ کہاں پر ہے؟‘

اس پر ڈرائیور نے ہمیں چرچ سے جنوب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاہی محل کی عمارت دکھائی۔ گاڑی سے اس کی عمارت تو پوری طرح نظر نہیں آرہی تھی لیکن اس خوبصورت شاہی محل کے کچھ حصے ہماری نظروں کو خیرہ کرنے کے لیے کافی تھے۔

اشبیلیہ کا شاہی محل بھی مسلمانوں کی عالیشان حکومت کا ایک شاہکار ہے۔ اس کا طرز تعمیر، اس دور کے مسلمان کاریگروں کے بہترین کام کی گواہی دیتا ہے۔ اس کی فنی تعمیر اور آرٹ بھی الحمرا محل سے کچھ مشابہت رکھتا ہے۔ اشبیلیہ کے اس خوبصورت محل اور دیگر تاریخی مقامات کو قریب سے دیکھنے کی آرزو کے ساتھ ہم اشبیلیہ ایئرپورٹ کی خوبصورت ترین عمارت کے سامنے اپنا سامان اتار کر ٹیکسی والے کو 50 یوروز پکڑاتے ہوئے ایئرپورٹ میں داخل ہوگئے۔

یورپ کی مشہور ایئرلائن ریان ایئر کی فلائٹ کو ساڑھے 7 بجے اشبیلیہ سے بارسلونا کے لیے روانہ ہونا تھا اور ابھی فلائٹ میں ایک گھنٹہ اور 45 منٹ کا وقت باقی تھا۔ مطلوبہ بوتھ سے بورڈنگ پاس اور سامان جمع کروا کر ہم ایئرپورٹ پر ناشتے کے لیے ایک کیفے میں چلے گئے۔

ناشتے میں کافی کے ساتھ کیک رسک لیا۔ بارسلونا میں ہمارے اپارٹمنٹ کا چیک اِن ٹائم دن کے 12 بجے تھا۔ اس لیے افتخار صاحب نے بارسلونا میں موجود ایک افغان دوست فرہاد ہمت سے رابطہ کیا جنہوں نے ایئرپورٹ سے اپنے گھر آنے کو کہا۔ یہ دعوت بصد خوشی قبول کرتے ہوئے ہم نے ناشتہ ان کے فلیٹ پر کرنے کی ہامی بھرلی۔

تھوڑی دیر بعد ہم فٹ بال اور بل فائیٹنگ کے لیے پوری دنیا میں مشہور شہر بارسلونا کی طرف محوپرواز ہوئے۔

عظمت اکبر

عظمت اکبر سماجی کارکن ہیں۔ آپ کوسیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔