نواز شریف کو وطن واپسی پر ہتھکڑی لگانے کا فیصلہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کریں گے، نگران وزیراعظم
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کو وطن واپسی پر ہتھکڑیاں لگانے کا فیصلہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا دائرہ اختیار ہے اور وہ یہ فیصلہ قابل اطلاق قانونی دفعات کے مطابق کریں گے۔
آج، جب سما ٹی وی کے شو ندیم ملک لائیو میں ایک انٹرویو کے دوران اس حوالے سے سوال کیا گیا کہ آیا مسلم لیگ(ن) کے قائد کو واپسی پر ہتھکڑی لگائی جائے گی یا نہیں تو وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون کی روشنی میں اس معاملے کا فیصلہ کریں گے، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کو زنجیروں میں جکڑ دیا جائے تو وہ یہی راستہ اختیار کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صوابدید پر ہے اور امید ہے کہ وہ اسے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ فریضہ انجام دیں گے۔
نواز شریف اپنی سزا کے بعد نومبر 2019 میں طبی بنیادوں پر ملک چھوڑ گئے تھے لیکن واپس نہیں آئے، العزیزیہ کیس میں سزا دیے جانے کے 20 دن بعد انہیں طبی بنیادوں پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
فروری 2020 میں اس وقت کی حکومت نے انہیں مفرور قرار دیا تھا اور بعد ازاں اسی سال احتساب عدالت نے توشہ خانہ میں گاڑیوں کے ریفرنس میں انہیں اشتہاری قرار دے دیا تھا۔
10 اگست کو جب شہباز شریف سے پوچھا گیا تھا کہ نواز شریف کی وطن واپسی پر نگراں حکومت کوئی مسائل تو پیدا نہیں کرے گی تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ نواز شریف قانون کا سامنا کریں گے، مسلم لیگ(ن) کے صدر نے اگست کے آخر میں لندن میں کہا تھا کہ نواز شریف انشا اللہ پاکستان آئیں گے اور قانون کا سامنا کریں گے، اس میں کوئی دو رائے نہیں۔
دوران انٹرویو جب نگران وزیر اعظم سے نواز شریف کی وطن واپسی پر گرفتاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں پوچھا گیا تو نگران وزیر اعظم نے کہا کہ وہ اس معاملے کو اپنے لیے چیلنج کے طور پر نہیں لے رہے ہیں کیونکہ اس بات کا فیصلہ وہ نہیں کر سکتے کہ مسلم لیگ(ن) کے قائد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے یا آزادانہ نقل و حرکت کر سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ میں اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قیادت موجود ہے، وہ جو بھی فیصلہ کریں خواہ وہ نواز شریف کو سلاخوں کے پیچھے بھیجیں یا پھر آزادی کے ساتھ نقل و حرکت کی اجازت دیں، یہ عدالتی عمل اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قیادت کا فیصلہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جہاں بھی حکومت کو لگے گا کہ دو ادارے قانون کی خلاف ورزی کررہے ہیں تو ایسی صورت میں وہ مداخلت کرے گی۔
پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس کی کارروائی کے لیے آج ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیے جانے کے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ میرے شاہ محمود کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا قانون کسی کو ہتھکڑی لگانے کی اجازت دیتا ہے، اگر قانون اس کی اجازت دیتا ہے تو یہ درست ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو آج لکھے گئے خط کے حوالے سے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا اصل مینڈیٹ صرف الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر نے ایک تاریخ تجویز کی ہے، الیکشن کمیشن اس پر غور و خوض کرے گا اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے مطلوبہ شرائط پر عمل کرے گا، میرے خیال میں الیکشن کمیشن جلد ہی اس حوالے سے کسی نتیجے پر پہنچنے کے بعد اس بات کا اعلان کرے گا کہ انتخابات کے لیے مناسب دن اور تاریخ کیا ہو گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ حقیقت پسندانہ طور پر اگر حلقہ بندیوں کا عمل انجام پا جاتا ہے تو جنوری کے وسط اور آخر کے درمیان کسی بھی دن کو انتخابات کی تاریخ کے طور پر منتخب کیا جا سکتا ہے۔
انوار الھق کاکڑ نے کہا کہ نگران حکومت انتخابی عمل کی حمایت کے لیے مکمل طور پر تیار ہے، عبوری سیٹ اپ کا کردار اس عمل کا جائزہ لینا ہے اور ہماری تیاری کم و بیش مکمل ہے۔