پاکستان

لاہور ہائیکورٹ: پرویز الہٰی گرفتاری کیس میں آئی جی اسلام آباد کے وارنٹ گرفتاری جاری

چوہدری پرویز الہٰی کی اہلیہ کی درخواست پر عدالت نے سیشن جج اسلام آباد کوآئی جی کے وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کروانے کی ہدایت کر دی۔

لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صدر چوہدری پرویز الہٰی کی گرفتاری پر توہین عدالت کی درخواست پر ہونے والی سماعت میں طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مرزا وقاص روف نے چوہدری پرویز الہٰی کی اہلیہ قیصرہ الہٰی کی رخواست کی جانب سے دائر توہین عدالت کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کیا۔

عدالت نے آئی جی اسلام آباد کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے سیشن جج اسلام آباد کو عمل درآمد کروانے کی ہدایت کر دی۔

آئی جی اسلام آباد کو عدالتی حکم کے باوجود پیش نہ ہونے پر قابل ضمانت ورانٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔

عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ مقدمے کے دوسری فریق نے اپنا جواب جمع کرا دیا ہے اور آئی جی پنجاب نے بھی 4 ستمبر کے حکم کے مطابق اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کردی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مرزا وقاص رؤف نے سماعت 18 ستمبر تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ یکم ستمبر کو چوہدری پرویز الہٰی کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے رہا کیا گیا تھا تاہم رہائی کے بعد گھر جاتے ہوئے اسلام آباد پولیس نے دوبارہ گرفتار کرلیا تھا، بعدازاں 2 ستمبر کو پرویز الہٰی کو اٹک جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔

اگلے روز پی ٹی آئی کے صدر پرویز الہٰی کی اہلیہ قیصرہ الہٰی نے پرویز الہٰی کو بحفاظت گھر نہ پہنچانے پر پولیس کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی تھی اور اس پر آئی جی اسلام آباد سمیت دیگر کو طلب کیا گیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ میں 4 ستمبر کو جسٹس امجد رفیق نے سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی اہلیہ قیصرہ الہٰی کی جانب سے توہین عدالت اور پرویز الہٰی کو حبس بے جا میں رکھنے کے اقدام کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشنز عمران کشور، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن علی ناصر رضوی اور ایس پی (سیکیورٹی) لاہور ہائی کورٹ رانا اسلم سے جواب طلب جبکہ آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر دیا تھا۔

پرویز الہٰی کی گرفتاری اور مقدمات

پرویز الہٰی پی ٹی آئی کے ان متعدد رہنماؤں اور کارکنوں میں شامل ہیں جنہیں 9 مئی کو ہونے والے ہنگاموں کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

انہیں پہلی بار یکم جون کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے ان کی لاہور رہائش گاہ کے باہر سے ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

اگلے ہی روز لاہور کی ایک عدالت نے انہیں مقدمے سے ڈسچارج کر دیا تھا لیکن اے سی ای نے انہیں گوجرانوالہ کے علاقے میں درج اسی طرح کے ایک مقدمے میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

اس کے بعد گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے انہیں 3 جون کو فنڈز کے غبن سے متعلق بدعنوانی کے دو مقدمات میں بری کر دیا تھا۔

مقدمے سے ڈسچارج ہونے کے باوجود اینٹی کرپشن اسٹیبلمشنٹ نے پھر پرویز الہٰی کو پنجاب اسمبلی میں ’غیر قانونی بھرتیوں‘ کے الزام میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

9 جون کو ایک خصوصی انسداد بدعنوانی عدالت نے اے سی ای کو غیر قانونی تعیناتیوں کے کیس کا ریکارڈ پیش کرنے کا ’آخری موقع‘ دیا تھا۔

اسی روز قومی احتساب بیورو حرکت میں آیا اور گجرات اور منڈی بہاالدین میں ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر غبن میں ملوث ہونے پر صدر پی ٹی آئی کے خلاف ایک اور انکوائری شروع کردی گئی۔

12 جون کو سیشن عدالت نے غبن کیس میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے پرویز الہٰی کی بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے اگلے روز لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے مذکورہ حکم کو معطل کردیا اور جوڈیشل مجسٹریٹ نے انہیں دوبارہ جوڈیشل لاک اپ بھیج دیا۔

20 جون کو پرویز الہٰی نے بالآخر لاہور کی انسداد بدعنوانی عدالت سے ریلیف حاصل کر لیا لیکن جیل سے رہا نہ ہو سکےکیونکہ ان کی رہائی کے احکامات جیل انتظامیہ کو نہیں پہنچائے گئے تھے۔

اسی روز ایف آئی اے نے ان پر، ان کے بیٹے مونس الہٰی اور تین دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام میں مقدمہ درج کیا۔

جس کے اگلے روز ایف آئی اے نے انہیں جیل سے حراست میں لے لیا اور منی لانڈرنگ کیس میں انہیں روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔

24 جون کو لاہور کی اسپیشل کورٹ سینٹرل نے سابق وزیراعلیٰ کی منی لانڈرنگ کیس ضمانت منظورکی تھی۔

تاہم 26 جون کو لاہور کی ایک ضلعی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں انہیں دوبارہ 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جس کے فوراً بعد ایف آئی اے نے انہیں کیمپ جیل کے باہر سے گرفتار کیا۔

12 جولائی کو لاہور کی سیشن عدالت نے غیر وضاحتی بینکنگ ٹرانزیکشنز کے کیس میں پرویز الہٰی کے جسمانی ریمانڈ سے انکار کے خلاف ایف آئی اے کی درخواست خارج کردی۔

اس کے دو روز بعد لاہور ہائی کورٹ نے پولیس اور اے سی ای کو پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کو کسی بھی نامعلوم کیس میں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

بعد ازاں 15 جولائی کو بینکنگ جرائم کی ایک عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کی کیمپ جیل سے رہائی کے احکامات جاری کیے تھے۔

تاہم انہیں رہا نہیں کیا گیا تھا اور پولیس نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنما کے خلاف غالب مارکیٹ تھانے میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یکم ستمبر کو چوہدری پرویز الہٰی کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے رہا کیے جانے کے بعد گھر جاتے ہوئے پولیس نے دوبارہ گرفتار کرلیا تھا، بعدازاں 2 ستمبر کو پرویز الہٰی کو اٹک جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔

ایشیا کپ: بھارت کی پاکستان کے خلاف 228 رنز کے ریکارڈ مارجن سے فتح

آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے ذیابیطس کے غیر تشخیص شدہ مریضوں کی تلاش شروع

بھارتی وزیر اعظم کی ’تاریخی‘ راہداری کی نقاب کشائی کے بعد سعودی عرب سے تعلقات کی تعریف