پاکستان

سارہ شریف قتل کیس: روپوش والد کے رشتہ داروں سے پولیس کی پوچھ گچھ

پولیس مختلف علاقوں میں چھاپے بھی مار رہی ہے اور جلد ہی اس جوڑے کو گرفتار کر لے گی، آر پی او راولپنڈی

برطانیہ میں اپنے گھر سے مردہ حالت میں برآمد 10 سالہ بچی سارہ شریف کے والد عرفان شریف کے 10 سے 15 رشتہ داروں سے جہلم پولیس نے پوچھ گچھ کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عرفان شریف، ان کی اہلیہ بینش بتول (جو سارہ کی سوتیلی ماں ہیں) ایک اور بالغ فرد اور 5 بچوں کے ساتھ 9 اگست کو برطانیہ سے پاکستان کے لیے روانہ ہوئے تھے، اس سے ایک روز بعد سارہ کی لاش پولیس کو ملی تھی۔

اس کے بعد سے وہ گرفتاری سے بچ رہے ہیں اور پولیس کی ٹیمیں ان کے رشتہ داروں پر ملزمان کو پکڑنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں۔

راولپنڈی کے علاقائی پولیس افسر (آر پی او) سید خرم علی نے بتایا کہ پولیس، عرفان اور بینش کی گرفتاری کے لیے آپریشن کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عرفان شریف کے 10 سے 15 رشتہ داروں کو پوچھ گچھ اور مفرور جوڑے کے ٹھکانے کے بارے میں جاننے کے لیے بلایا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا کیونکہ ان پر کسی بھی مقدمے میں فرد جرم عائد نہیں کی گئی تھی اور انہیں پوچھ گچھ کے بعد جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

سید خرم علی نے کہا کہ پولیس مختلف علاقوں میں چھاپے بھی مار رہی ہے اور جلد ہی اس جوڑے کو گرفتار کر لے گی۔

’بی بی سی نیوز‘ نے گزشتہ روز یہ اطلاع دی کہ پاکستان میں پولیس نے عرفان شریف کے متعدد رشتہ داروں کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا ہے۔

جمعہ کو سارہ کے دادا محمد شریف نے ’بی بی سی‘ کو بتایا تھا کہ انہوں نے 2، 3 روز قبل اپنے بیٹے عرفان شریف کو خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا پیغام بھیجا تھا۔

محمد شریف نے کہا کہ اگر میرا بیٹا خود کو پولیس کے حوالے کردیتا ہے تو ہمارے ساتھ ہونے والی پریشانیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔

انہوں نے اور ان کے اہل خانہ نے پولیس پر انہیں ہراساں کرنے، کچھ فیملی اراکین کو غیر قانونی طور پر حراست میں لینے اور ان کے گھروں پر چھاپے مارنے کا الزام عائد کیا ہے، محمد شریف نے مزید دباؤ ڈالنے کے لیے اپنے خلاف جعلی مقدمات بنانے کا الزام بھی پولیس پر عائد کیا۔

تاہم راولپنڈی کے آر پی او نے اس کی تردید کرتے ہوئے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ ہم ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور ان کے لیے اتنے لوگوں کو چھپا کر رکھنا مشکل ہے، ہم ان کے رشتہ داروں تک پہنچ رہے ہیں اور ان سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔

اس سے قبل محمد شریف نے ’بی بی سی ’کو بتایا تھا کہ سارہ کی موت ایک حادثہ تھی اور خاندان کے 3 افراد (جو برطانیہ سے پاکستان چلے گئے تھے) پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک حادثہ تھا، انہوں نے مجھے نہیں بتایا کہ یہ کیسے ہوا، عرفان خوف کے مارے برطانیہ چھوڑ چکا ہے۔

دریں اثنا سارہ شریف کی سوتیلی ماں بینش بتول نے چند روز قبل ایک ویڈیو پیغام بھی جاری کیا جو کہ متوفی بچی کے گھر والوں کی جانب سے منظرعام پر آنے والا پہلا بیان ہے۔

بظاہر اسمارٹ فون پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں سارہ کی سوتیلی والدہ بچی کے والد عرفان شریف کے ساتھ دکھائی دیں، بینش بتول نے دعویٰ کیا کہ وہ دونوں میاں بیوی برطانوی حکام کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں اور ان کا خاندان پاکستانی پولیس کے تشدد کے خوف سے روپوش ہے۔

قبل ازیں سارہ کے چچا عمران شریف نے بھی پاکستان میں پولیس کو بتایا تھا کہ خاندان کا مؤقف یہ ہے کہ سارہ گھر میں سیڑھیوں سے نیچے گر گئی تھی جس کے سبب اس کی گردن ٹوٹ گئی تھی، بینش نے گھبرا کر عرفان کو فون کیا۔

تاہم سرے پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کے معائنے سے یہ بات سامنے آئی کہ سارہ کے جسم پر کئی گہرے زخم تھے جو کہ ممکنہ طور پر طویل عرصے سے موجود تھے۔

غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے نئی ویزا پالیسی متعارف

ایشیا کپ: بھارت کے خلاف سپر فور میچ کیلئے پاکستان کی فائنل الیون کا اعلان

امریکا، بھارت، یورپی یونین اور سعودی عرب کا ریل اور بندرگاہوں کے معاہدے کا اعلان