پاکستان

اسلام آباد: ارشد شریف کی بیوہ، ٹی وی شو کے پروڈیوسر کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

مجھے میڈیا سے معلوم ہوا کہ میرے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے ہیں حالانکہ کبھی سمن جاری نہیں ہوا، سمعیہ ارشد

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے صحافی ارشد شریف قتل کیس میں بیان کے لیے طلبی پر پیش نہ ہونے پر مقتول ارشد شریف کی بیوہ سمعیہ ارشد اور اے آر وائی نیوز میں ان کے شو کے پروڈیوسر کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

اسلام آباد کے جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت میں صحافی ارشد شریف قتل کیس کی سماعت ہوئی جہاں بیان ریکارڈ کرانے کے لیے متعدد مرتبہ طلب کرنے کے باوجود پیش نہ ہونے پر ارشدشریف کی بیوہ سمعیہ ارشد اور شو کے پروڈیوسر کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

عدالت نے گزشتہ سماعت پر کیس کے گواہان مقتول ارشد شریف کے ٹی وی شو پروڈیوسر کے پروڈیوسر اور ان کی بیوہ کو بیان قلم بند کروانے کے لیے طلب کیا تھا اور گواہان کی مسلسل عدم پیشی پر برہمی کا اظہار بھی کیا تھا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ نے 2 ستمبر کو سماعت میں گواہان کو طلبی کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 9 ستمبر کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔

دوسری جانب ارشد شریف کی بیوہ سمعیہ ارشد نے اے آر وائی نیوز سےبات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہیں عدالت کی جانب سے کوئی سمن نہیں بھیجا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا میں رپورٹ آنے تک مجھے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے اجرا کا علم نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے میڈیا سے معلوم ہوا اور کسی نے مجھے نہیں بتایا کہ میرے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے ہیں۔

سمعیہ ارشد نے کہا کہ میرے خاوند کے قتل کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) ریاست کی مدعتی میں درج کی گئی ہے اور ان کی خاندان کی جانب سے درج نہیں کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اس کیس اور اس کی تفصیلات سے آگاہ نہیں ہوں، مجھے صرف سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کا علم ہے، جس پر میں حاضر ہوئی تھی اور تمام سماعتوں میں موجود تھی۔

ارشد شریف کی دوسری اہلیہ جویریہ صدیق نے بھی عدالت کی جانب سے سمن موصول ہونے کی تردید کی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی سمن نہیں بھیجا گیا لیکن سوشل میڈیا پر دیکھا ہے کہ میرے گھر کا ایڈریس دیا گیا ہے، یہ ہراسانی اور نشانہ بنانے کا اقدام ہے اور مقتول ارشد شریف کے خاندان کو خاموش کرانے کی ایک اور کوشش ہے۔

اے آر وائی نیوز کے ڈائریکٹر عماد یوسف نے کہا کہ کیس اس ایف آئی آر کی بنیاد پر ہے جس سے خاندان نے شروع دن سے مسترد کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خاندان کو اس ٹرائل کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے، انہیں نہ تو پولیس یا عدالت سے کوئی سمن موصول ہوا اور نہ ہی وہ اس بوگس ٹرائل کو حیثیت بخشنے کے لیے پیش ہونا چاہتے ہیں۔

ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر عباس ناصر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اس اقدام کو ظالمانہ قرار دے دیا۔

ارشد شریف قتل کیس

ارشد شریف گزشتہ سال اگست میں اپنے خلاف کئی مقدمات درج ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ گئے تھے، ابتدائی طور پر وہ متحدہ عرب امارات میں رہے، جس کے بعد وہ کینیا چلے گئے جہاں انہیں اکتوبر میں قتل کردیا گیا تھا۔

ابتدائی طور پر کینیا کے میڈیا نے مقامی پولیس کے حوالے سے کہا کہ ارشد شریف کو پولیس نے غلط شناخت پر گولی مار کر ہلاک کر دیا، بعد میں کینیا کے میڈیا کی رپورٹس نے قتل سے متعلق واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا کہ ارشد شریف کے قتل کے وقت ان کی گاڑی میں سوار شخص نے پیراملٹری جنرل سروس یونٹ کے افسران پر گولی چلائی۔

اس کے بعد حکومت پاکستان نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جو قتل کی تحقیقات کے لیے کینیا گئی تھی۔

قتل کے فوری بعد جاری بیان میں کینیا پولیس نے کہا تھا کہ پولیس نے ان کی گاڑی پر رکاوٹ عبور کرنے پر فائرنگ کی، نیشنل پولیس سروس (این پی ایس) نیروبی کے انسپکٹر جنرل کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’50 سالہ پاکستانی شہری ارشد محمد شریف گاڑی نمبر کے ڈی جی 200 ایم پر سوار مگادی، کاجیادو کی حدود میں پولیس کے ایک واقعے میں شدید زخمی ہوگئے تھے‘۔

کینیا کی پولیس نے واقعے کے لواحقین سے اظہار افسوس کرتے ہوئے بیان میں مزید کہا تھا کہ ’این پی ایس اس واقعے پرشرمندہ ہے، متعلقہ حکام واقعے کی تفتیش کر رہی ہیں تاکہ مناسب کارروائی ہو‘۔

کینیا کے میڈیا میں فوری طور پر رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کا واقعہ پولیس کی جانب سے شناخت میں ’غلط فہمی‘ کے نتیجے میں پیش آیا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف اور ان کے ڈرائیور نے ناکہ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کی جس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی، سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ارشد شریف موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے۔

بعد ازاں ز اسلام آباد پولیس نے سپریم کورٹ کے حکم پر ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ تھانہ رمنا میں پولیس کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 302، 34 کے تحت درج کیا گیا، جس میں خرم احمد، وقار احمد اور طارق احمد وصی کو نامزد کیا گیا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ انسپکٹر میاں محمد شہباز اطلاع ملنے پر اسلام آباد کے پمز ہسپتال پہنچے جہاں ارشد شریف کا جسد خاکی بیرون ملک سے پاکستان پہنچایا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ارشد شریف کا میڈیکل بورڈ کے ذریعے پوسٹ مارٹم کیا گیا اور بورڈ نے نمونوں کے 4 پارسلز اور ایک سکہ گولی کا نمونہ حوالے کیا، تاہم اس وقت پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نہیں دی جبکہ جسد خاکی لواحقین کے حوالے کردیا گیا۔

پولیس نے کہا تھا کہ ارشد شریف کا قتل بیرون ملک ہوا اور اس کی انکوائری اعلیٰ سطح پر ہو رہی ہے جبکہ میڈیکل بورڈ کی جانب سے دیے جانے والے نمونوں کے پارسل تھانے میں رکھے گئے۔

مقدمے میں کہا گیا تھا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کی موت آتشیں اسلحے کا فائر لگنے سے ہوئی۔

سیاسی،آئینی معاملات پر آصف زرداری کے بجائے کارکنوں اور پارٹی کے فیصلوں کا پابند ہوں، بلاول بھٹو

الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر کے بے یقینی کا خاتمہ کرے، شیری رحمٰن

ایشیا کپ: بھارت کے خلاف سپر فور میچ کیلئے پاکستان کی فائنل الیون کا اعلان