دنیا

امریکا، بھارت، یورپی یونین اور سعودی عرب کا ریل اور بندرگاہوں کے معاہدے کا اعلان

یہ منصوبہ دو براعظموں کی بندرگاہوں میں پل کا کردار ادا کرے گا اور زیادہ مستحکم، زیادہ خوشحال اور مربوط مشرق وسطیٰ" کی طرف لے کر جائے گا، جو بائیڈن

بھارت میں جاری دو روزہ جی20 سربراہی اجلاس میں عالمی رہنماؤں نے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو جوڑنے والے کثیر الملکی ریل اور بندرگاہوں کے معاہدے کا اعلان کر دیا۔

غیرملکی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق معاہدہ ایک نازک موڑ پر سامنے آیا ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن جی20 گروپ میں ترقی پذیر ممالک کے لیے امریکا کو متبادل پارٹنر اور سرمایہ کار کے طور پر پیش کرتے ہوئے عالمی منظرنامے پر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بائیڈن نے کہا کہ یہ ایک حقیقی بڑا سودا ہے جو دو براعظموں کی بندرگاہوں میں پل کا کردار ادا کرے گا اور زیادہ مستحکم، زیادہ خوشحال اور مربوط مشرق وسطیٰ کی طرف لے کر جائے گا۔

انہوں نے غیررسمی اجلاس کے دوران معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ صاف توانائی، صاف بجلی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ عوام کو جوڑنے اور کیبل بچھانے کے لامتناہی مواقع کھول دے گا۔

سربراہی اجلاس کے میزبان ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ آج جب ہم ممالک کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے اتنے بڑے اقدام کا آغاز کر رہے ہیں، تو ہم آنے والی نسلوں کے لیے بڑے خوابوں کے بیج بو رہے ہیں۔

امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیر جون فائنر نے نئی دہلی میں بلاک کے سالانہ سربراہی اجلاس میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے سے خطے کے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو زیادہ فائدہ پہنچے گا اور عالمی تجارت میں مشرق وسطیٰ کے لیے ایک اہم کردار ادا کرے گا۔

اس کا مقصد مشرق وسطیٰ کے ممالک کو ریلوے کے ذریعے جوڑنا اور بندرگاہ کے ذریعے ان کے بھارت سے روابط قائم کرنا ہے جس سے خلیج سے یورپ تک توانائی اور تجارت کے فروغ میں مدد ملے گی۔

معاہدے کے لیے مفاہمتی یادداشت پر یورپی یونین، بھارت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکا اور دیگر جی20 شراکت داروں نے دستخط کیے۔

جون فائنر نے کہا کہ ہمارے خیال میں ان اہم خطوں کو جوڑنا بہت بڑا موقع ہے۔

معاہدے کی مالیت کے حوالے سے فوری طور پر کوئی تفصیلات دستیاب نہ ہو سکیں۔

دوسری جانب بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں جاری جی 20 اجلاس کے افتتاحی روز اتفاق رائے سے اعلامیہ منظور کیا گیا جس میں یوکرین جنگ پر روس کی مذمت کرنے کے بجائے تمام ریاستوں کو طاقت کے استعمال سے گریز کا مشورہ دیا گیا۔

میزبان بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ یہ اعلامیہ متفقہ طور سمٹ کے افتتاحی روز منظور کیا گیا۔

یہ اتفاق رائے کافی حیران کن ہے کیونکہ گروپ یوکرین کی جنگ پر واضح طور پر تقسیم ہے، مغربی ممالک کے رہنماؤں کے اعلامیے میں روس کی سخت مذمت پر زور دیا گیا تھا جبکہ دیگر ممالک نے وسیع تر اقتصادی مسائل پر توجہ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ہم تمام ریاستوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ امن کا تحفظ کرنےوالے بین الاقوامی اصولوں بشمول علاقائی سالمیت اور خودمختاری، بین الاقوامی انسانی قانون، اور کثیرالجہتی نظام کو برقرار رکھیں۔

اس سلسلے میں کہا گیا کہ ہم یوکرین میں ایک جامع، منصفانہ اور پائیدار امن کے حامی تمام متعلقہ اور تعمیری اقدامات کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال یا استعمال کی دھمکی ناقابل قبول ہے۔

اعلامیے میں یوکرین اور روس سے اناج، خوراک اور کھاد کے محفوظ بہاؤ کے لیے بحیرہ اسود معاہدے کی بحالی پر بھی زور دیا گیا ہے جہاں روس نے جولائی میں اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔

مودی نے نئی دہلی میں امریکی صدر جو بائیڈن اور دنیا بھر کے سربراہان مملکت اور ریاستوں سے کہا کہ تمام ٹیموں کی محنت کی وجہ سے، ہم جی20 لیڈرز سمٹ کے اعلامیہ پر اتفاق رائے حاصل کر سکے، میں اس اعلامیے کو اپنانے کا اعلان کرتا ہوں۔

جنگ کے بارے میں مختلف خیالات اور آرا کے پیش نظر اس سال اب تک بھارت کی زیر صدارت ہونے والے جی20 کے دوران وزارتی اجلاسوں میں ایک بھی معاہدہ نہیں ہو سکا۔

اس اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن، فرانس کے صدر ایمینوئیل میکرون، سعودی عرب کے ولی محمد بن سلمان، کینیڈا کے جسٹن ٹروڈیو، جرمن چانسلر اولف شولزم، برطانوی وزیر اعظم رشی سونک اور جاپان کے فومیو کشیدا سمیت متعدد بڑے عالمی رہنما موجود ہیں۔

تاہم چین کے صدر شی جن پنگ اور روس کے ولادمیر پیوٹن بھی اجلاس میں شریک نہیں ہیں اور چین کے صدر کی جگہ وزیراعظم لی کیانگ اس بیٹھک میں شرکت کریں گے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ گروپ نے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں قرضوں کے خطرات کو موثر، جامع اور منظم انداز میں حل کرنے پر اتفاق کیا، لیکن کوئی نیا ایکشن پلان نہیں بنایا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ ان ممالک نے کثیر الجہتی ترقیاتی بینکوں کو مضبوط اور ان میں اصلاحات کا وعدہ کیا ہے جبکہ اس کے علاوہ کرپٹو کرنسیوں کے لیے سخت ضوابط مرتب کرنے کی تجویز کو بھی قبول کیا۔

گروپ نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ دنیا کو توانائی کی منتقلی کے لیے سالانہ 40کھرب ڈالر کی فنانسنگ کی ضرورت ہے اور کوئلے سے بجلی کی پیداوار مرحلہ وار کم کرنے کی کوششوں کو تیز کرنے پر زور دیا گیا۔