دنیا

جی20 ملکوں کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے ترقی پذیر ممالک سے تعاون کرنا چاہیے، مودی

عالمی رہنما اتفاق رائے قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو بالخصوص ترقی پذیر ممالک پر اس کے سنگین نتائج مرتب ہوں گے، بھارتی وزیراعظم

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعرات کے روز کہا کہ جی20 ممالک کو ترقی پذیر ملکوں کو زیادہ نقد رقم اور ان سے ٹیکنالوجی کا اشتراک کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے تعاون کرنا چاہیے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق دنیا بھر میں ریکارڈ توڑ درجہ حرارت اور مہلک ہیٹ ویوز کے پیش نظر موسمیاتی ماہرین اور سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر عالمی رہنما اتفاق رائے قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو بالخصوص ترقی پذیر ممالک کے لیے اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

رواں ماہ جی20 اجلاس کی سربراہی اور میزبانی کرنے والے نریندر مودی نے بھارت کو دنیا کے جنوبی حصے کے لیے خود ساختہ رہنما کے طور پر پیش کیا ہے جو ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرے گا۔

مودی نے کئی ہندوستانی آؤٹ لیٹس کے ساتھ ساتھ جاپان اور برطانیہ سمیت بین الاقوامی اداروں کے روزناموں کے اداریے میں لکھا کہ گلوبل ساؤتھ کے بہت سے ممالک ترقی کے مختلف مراحل پر ہیں اور موسمیاتی حوالے سے اقدامات بنیادی ہدف ہونا چاہیے۔

عالمی سطح پر، دولت مند ممالک نے 2020 تک غریب ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سالانہ 100 ارب ڈالر کی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ اسے پورا کرنے میں ناکام رہے جس سے یہ اعتماد مجروح ہوا کہ آلودگی کا سبب بننے والے ممالک ان ملکوں کی مدد کریں گے جو اس آلودگی کے نسبتاً بہت کم ذمے دار ہیں۔

جی20 کا اجلاس رواں ہفتے نئی دہلی میں ہوگا جو 19 ممالک کے ساتھ ساتھ یورپی یونین پر مشتمل ہے اور ان ممالک کی مجموعی دولت عالمی جی ڈی پی کا تقریباً 85 فیصد ہے لیکن یہ اتنی ہی مقدار میں کاربن کے اخراج کا سبب بھی بنتے ہیں۔

مودی نے مزید کہا کہ آب و ہوا کے حوالے سے اقدامات اس سلسلے میں مختص کی گئی رقم اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے اقدامات سے مطابقت رکھنے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ایک مکمل طور پر محدود رویے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کہ کیا نہیں کیا جانا چاہیے اور اس کے بجائے اس بات پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلی سے لڑنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔

جولائی میں جی 20 کے توانائی کے وزرا کا اجلاس فوسل فیول اور حتیٰ کے کوئلے کے استعمال کو مرحلہ وار کم کرنے کے حوالے سے روڈ میپ پر اتفاق کرنے میں ناکام رہا - جہاں کوئلہ بھارت اور چین جیسی معیشتوں کے لیے توانائی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

دونوں ایشیائی ممالک عالمی سطح پر سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ملکوں میں شامل ہیں لیکن اس کے دفاع میں وہ یہ دلیل دہتے ہیں کہ ماضی میں بڑے پیمانے پر آلودگی کا سبب بننے والے مغربی ممالک کو موجودہ عالمی موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے زیادہ ذمہ داری اٹھانے کی ضرورت ہے۔

جی20 توانائی اور موسمیاتی اتفاق رائے کو سعودی عرب اور روس جیسے ممالک کی طرف سے بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، جنہیں خدشہ ہے کہ فوسل فیول کا استعمال کرنے کے نتیجے میں ان کی معیشتوں کو نقصان پہنچے گا۔

بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے خوراک اور غذائیت کی حفاظت کو یقینی بنانا بہت اہم ہوگا اور اس سلسلے میں موسمیاتی اسمارٹ زراعت کا فروغ ایک حل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی تبدیلی کا باعث ہے لیکن اسے جامع بنانے کی بھی ضرورت ہے۔

جی20 اجلاس 9 تا 10 ستمبر تک منعقد ہو گا جہاں اس اجلاس میں گلوبل وارمنگ پر کارروائی کے لیے گفتگو ایجنڈے کا بنیاد جزو ہے۔

سرحدی فورسز کے درمیان جھڑپیں، طورخم بارڈر لگاتار دوسرے دن بند

شاہ رخ خان کی ’جوان‘ کا ریلیز ہوتے ہی ریکارڈ

کراچی کے تباہ حال انفرا اسٹرکچر کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟