Parenting

’بچے کی پیدائش کے وقت والد بھی ماں کی طرح ڈپریشن کا شکار بن سکتا ہے‘

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ حمل ٹھہرتے ہی والدہ کی پریشانی اور طبی پیچیدگیاں شروع ہوجاتی ہیں۔

ایک منفرد تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بچے کی پیدائش کے وقت ماں کی طرح والد بھی ڈپریشن اور دیگر طبی پیچیدگیوں کا شکار بن سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے والد کی پریشانیوں پر توجہ نہیں دی جاتی۔

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ حمل ٹھہرتے ہی والدہ کی پریشانی اور طبی پیچیدگیاں شروع ہوجاتی ہیں اور وہ اس ضمن میں علاج بھی کرواتی ہیں۔

لیکن ایسی صورت حال میں والد اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے اور مرد ہونے کی وجہ سے ایک سماجی رویہ بھی پایا جاتا ہے کہ بچے کی پیدائش کے وقت باپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔

تاہم ایک منفرد تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بچے کی پیدائش سے قبل اور پہلے ماں کی طرح والد بھی ڈپریشن کا شکار بن سکتے ہیں۔

’امریکی سائکالوجی ایسوسی ایشن‘ میں شائع ایک منفرد تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا 10 فیصد والد بھی بچوں کی پیدائش کے بعد ڈپریشن کا شکار بنتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جہاں بچوں کی پیدائش کے بعد والد ڈپریشن کا شکار بن سکتے ہیں، وہیں اہلیہ کے حاملہ ہونے کے بعد شوہر بھی ایسی طبی پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں جو ان کی شریک حیات میں ہوتی ہیں اور ایسے شوہروں کی شرح 18 فیصد تک ہے۔

یعنی حمل ٹھہرنے کے بعد جس طرح کی طبی پیچیدگیوں کا سامنا خاتون کرتی ہیں، اسی طرح کی بعض پیچیدگیاں مرد کو بھی ہونے لگتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق شریک حیات کے حاملہ ہونے کے بعد شوہروں میں بھی متلی، معدے کی شکایت، سینے میں جلن، بے خوابی اور دل کی دھڑکن تیز ہونے سمیت اسی طرح کی دیگر طبی پیچیدگیوں کی شکایت بڑھ جاتی ہے۔

رپورٹ میں حیران کن دعویٰ کیا گیا کہ شریک حیات کے حاملہ ہونے کے بعد مرد میں بھی کچھ ایسے ہارمونز کی تعداد بڑھ جاتی ہے جو نئی ماں بننے والی خواتین کے لیے دودھ بنانے سمیت اسی طرح کے دیگر کاموں میں کام آتے ہیں۔

تحقیق میں اعتراف کیا گیا کہ دنیا بھر میں نہ صرف خود مرد حضرات شریک سفر کے حاملہ ہونے اور بچے کی پیدائش کے وقت اپنی ذہنی صحت کا خیال نہیں رکھتے بلکہ ماہرین صحت کی بھی یہی سوچ ہوتی ہے والد کو علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔

’ڈپریشن کے شکار باپ کا بچوں کے رویے میں اہم کردار ہوتا ہے‘

کیا آپ ’والدین کے عالمی دن‘ کے بارے میں جانتے ہیں؟

نومولود بچوں میں نیند کی کمی سے پریشان والدین آخر کیا کریں؟