دنیا

پاکستان نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے قائمہ کمیٹی کے قیام کی تجویز دے دی

سلامتی کونسل کی قراردادوں کی میعاد ختم ہونے کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی، ان پر عمل درآمد ہونا چاہیے، پاکستانی سفیر

پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی (مسئلہ کشمیر سمیت دیگر امور پر) قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے ایک قائمہ کمیٹی قائم کرنے کی تجویز دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کونسل کے امور پر 5 ستمبر کو ہونے والی بحث میں پاکستان نے سلامتی کونسل کو متنبہ کیا کہ 15 رکنی ادارے کو مزید بہتر نمائندہ بنانے کے لیے طویل عرصے سے جاری عالمی عمل کو ایک ریاست (بھارت کا مبہم حوالہ) تباہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر منیر اکرم نے بحث کے دوران سلامتی کونسل کو بتایا کہ پاکستان تجویز کرتا ہے کہ سلامتی کونسل اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے ایک قائمہ کمیٹی تشکیل دے۔

انہوں نے کمیٹی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سلامتی کونسل کی سالانہ رپورٹ کا لازمی حصہ بنانے کی تجویز بھی دی۔

پاکستانی سفیر نے کشمیر کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر بھارت کے مطالبات کا بالواسطہ حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ان لوگوں کی بے وقوفی ہے جو سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد سے انکار کرتے ہیں اور پھر یہ کہتے ہیں کہ ’متروک‘ امور کو ایجنڈے سے ہٹا دیا جائے۔

انہوں نے واضح کیا کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی میعاد ختم ہونے کی تاریخ نہیں ہوتی، ان پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔

بھارت کا نام لیے بغیر سفیر منیر اکرم نے کہا کہ اپنے غلط عزائم کی تکمیل کے لیے ایک ’ریاست‘ بین الحکومتی مذاکرات (آئی جی این) کے عمل کو تباہ کرنے پر مُصر دکھائی دیتی ہے، جو اقوام متحدہ کے تمام اراکین کی متفقہ حمایت سے قائم کیا گیا تھا۔

’آئی جی این‘ قومی ریاستوں کا ایک گروپ ہے جو اقوام متحدہ کے اندر سلامتی کونسل کی اصلاحات کو آگے بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے، 27 جولائی 2016 کو آئی جی این نے مختلف علاقوں کو نمائندگی دے کر سلامتی کونسل کو عالمی سطح پر نمائندگی کا مزید موزوں پلیٹ فارم بنانے کے لیے اتفاق رائے کا بیان جاری کیا تھا۔

سلامتی کونسل میں فی الوقت 5 مستقل (برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکا) ممالک شامل ہیں اور 10 غیر مستقل اراکین 2 برس کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔

2009 سے بھارت، برازیل، جرمنی اور جاپان (جنہیں جی-4 کے نام سے جانا جاتا ہے) سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے لیے زور دے رہے ہیں، جس کی اٹلی/پاکستان کی قیادت میں اتحاد برائے اتفاق (یو ایف سی) گروپ سختی سے مخالفت کرتا ہے۔

یو ایف سی گروپ نے سلامتی کونسل میں مزید مستقل اراکین کو شامل کرنے کی مخالفت کی ہے اور اس کے بجائے غیر مستقل اراکین کی ایک نئی کیٹیگری تجویز کی ہے جس کی مدت طویل ہو اور دوبارہ منتخب ہونے کا امکان ہو۔

3 ستمبر کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت کے مطالبے کو دہرایا اور دعویٰ کیا کہ 20ویں صدی کا نقطہ نظر 21ویں صدی میں دنیا کے کسی کام نہیں آسکتا، بین الاقوامی اداروں کو بدلتی ہوئی حقیقتوں کو پہچاننے اور اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

لیکن 5 ستمبر کو بھارت نے منی پور میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کی رپورٹ کو ’غیر ضروری، مفروضے پر مبنی اور گمراہ کن‘ قرار دے کر مسترد کر دیا۔

رپورٹ میں ریاست کی ہندو اکثریت پر عیسائی اقلیت کے خلاف جنسی تشدد، ماورائے عدالت قتل، گھروں کی تباہی، جبری نقل مکانی، تشدد اور ناروا سلوک کے ارتکاب کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

رواں برس جب جون میں جنرل اسمبلی نے سلامتی کونسل کے 78ویں اجلاس میں اصلاحات پیش کیں تو بھارت نے اس اقدام پر سخت تنقید کی اور اسے موقع کا ضیاع قرار دیا۔

’سلامتی کونسل کے کام کرنے کے طریقوں‘ کے حوالے سے اپنے بیان میں سفیر منیر اکرم نے کہا کہ عالمی ادارے کے کام کرنے کے طریقوں کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف کونسل کے اندر جمہوریت، احتساب، شفافیت اور تاثیر کی خواہش پر مبنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سلامتی کونسل کے امور میں شفافیت اور ان کے اعلانیہ ہونے کا حامی ہے، اراکین کو چاہیے کہ وہ بند کمرے میں ہونے والے اجلاسوں کو معمول نہ بنائیں۔

توہین عدالت کیس: ڈپٹی کمشنر اسلام آباد، ایس ایس پی آپریشنز سمیت دیگر افسران پر فرد جرم عائد

’دنیا بھر میں 50 سال سے کم عمر افراد میں کینسر کے کیسز میں نمایاں اضافہ‘

تاجکستان کا افغانستان سے داخل ہونے والے عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ