دنیا

چینی عوام کے جذبات مجروح کرنے والے لباس، تقریر پر پابندی کے مجوزہ قانون پر نئی بحث چھڑ گئی

قانون کی خلاف ورزی کرنےکی صورت میں جرمانہ عائد کیا جائے گا یا جیل بھی جانا پڑ سکتا ہے۔

چین میں نئے مجوزہ قانون کے حوالے سے نئی بحث چھڑ گئی ہے، اس قانون کے تحت ایسی باتیں کہنے اور لباس پہننے پر پابندی لگائی جائے گی جس سے چینی لوگوں کے جذبات مجروح ہوسکتے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق اگر یہ مجوزہ قانون منظور ہوتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرنے والوں پر جرمانہ عائد کیا جائے گا یا جیل بھی جانا پڑ سکتا ہے۔

چین کے قانون ساز ادارے کی قائمہ کمیٹی نے حال ہی میں ایک قانون میں ممکنہ تبدیلیوں کا مسودہ شائع کیا ہے اور اسے رواں سال منظوری کے لیے ترجیحات میں شامل کیا گیا ہے، یہ تبدیلیاں طویل عرصے بعد کی گئی ہیں جس کا ابھی جائزہ لیا جارہا ہے۔

مجوزہ قانون کے مطابق ایسی باتیں کہنے اور لباس پہننے پر پابندی لگائی جائے گی جس سے چینی عوام کے جذبات مجروح ہوسکتے ہیں۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ اور قانونی ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ چینی حکومت کو اس قانون کی مزید تشریح کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے لباس کے حوالے سے قانون پر شدید تنقید کی جارہی ہے، اسے مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق قانون کی خلاف ورزی کرنے کے نتیجے میں 15 دن جیل ہوسکتی ہے یا 5 ہزار یوآن (یعنی 2 لاکھ 10 ہزار پاکستانی روپے) تک کا جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے، تاہم اس قانون میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کس قسم کی تقریر یا لباس قانون کے خلاف سمجھی جائے گی۔

مجوزہ قانون میں ملکی ہیروز کی توہین کرنا، نامناسب الفاظ استعمال کرنا یا ان کے یادگاروں یا مجسموں کو نقصان پہنچانا بھی قانون کے خلاف سمجھا جائے گا۔

سوشل میڈیا صارفین نے سوال کیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ کس طرح تعین کریں گے کہ ’قوم کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔‘

ملک کے قانونی ماہرین نے بھی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون کی تشریح کرنے کی ضرورت ہے، اس کا غلط استعمال بھی ہو سکتا ہے۔

چائنیز یونیورسٹی آف پولیٹیکل سائنس اینڈ لا کے قانون کے پروفیسر ژاؤ ہونگ نے کہا ہے کہ قانون میں وضاحت اور تشریح کی کمی ذاتی حقوق کی خلاف ورزی کا باعث بن سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’قانون نافذ کرنے والے ایک عام پولیس افسر اپنے ذاتی خیالات کی بنیاد پر کسی شخص کی تقریر یا لباس کو چینی عوام کے جذبات مجروح کرنے کی تعریف سمجھ سکتا ہے‘۔

چینی پروفیسر نے تشویش کا اظہار کیا کہ ان کی ذاتی رائے پولیس کو لوگوں کے عمل کے بارے میں قانونی فیصلہ کرنے پر مجبور کر سکتی ہے جو اصل قانون کا حصہ نہیں ہیں۔

رواں سال مارچ میں پولیس نے رات کو بازار میں ایک خاتون کو حراست میں لیا تھا جنہوں نے جاپانی فوج کی نقلی وردی پہن رکھی تھی۔

اس کے علاوہ اگست کے شروع میں جن لوگوں نے قوس قزح کے کپڑے پہنے ہوئے تھے، انہیں بیجنگ میں تائیوان کے نامور گلوکار کے کنسرٹ میں داخلے سے منع کر دیا گیا تھا۔

مشہور سماجی کارکن وانگ ووسی نے سوال کیا کہ ’کیا کیمونو (جاپان کا قومی لباس) پہننا یا جاپانی کھانا کھانا چینی قوم کے جذبات کو نقصان پہنچا رہا ہے؟ چینی قوم اتنی حساس کب ہوئی؟‘

آسٹریلوی وزیر اعظم کی دورہ چین کی تصدیق، تعلقات کی بحالی کیلئے تیار ہیں، چینی ہم منصب

پاکستان نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے قائمہ کمیٹی کے قیام کی تجویز دے دی

یوکرین: ڈونیٹسک کے بازار میں روس کا حملہ، 17 افراد ہلاک