تاجکستان کا افغانستان سے داخل ہونے والے عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ
تاجکستان نے کہا ہے کہ اس نے ایک ’دہشت گرد گروپ‘ کے 3 ارکان کو ہلاک کر دیا ہے جو پڑوسی ملک افغانستان سے ملک میں دراندازی کرنے کے لیے آئے تھے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ رواں برس وسطی ایشیائی ملک میں اپنی نوعیت کا دوسرا واقعہ ہے۔
سابق سوویت یونین میں شامل تاجکستان کم آبادی والا، غریب، پہاڑی ملک ہے جہاں یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ جنگ زدہ جنوبی پڑوسی ملک میں طالبان کی اقتدار میں واپسی ملک کو غیر مستحکم کر سکتی ہے۔
خبر رساں ایجنسی کبار نے جی کے این بی سیکیورٹی سروس کے اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ ایک دہشت گرد تنظیم کے تین ارکان نے 29-30 اگست کی درمیانی شب تاجک-افغان سرحد کی خلاف ورزی کی اور 9 ستمبر کو تاجک قومی تعطیل سے قبل دہشت گردانہ کارروائی کرنے کے لیے کیورون گاؤں کی جانب بڑھے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ دہشت گرد گروپ کے تین ارکان نے 5 ستمبر کے اوائل میں ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا جس کے بعد انہیں ہلاک کر دیا گیا۔
یہ تینوں افراد تاجک باشندے تھے جن کا تعلق جماعت انصار اللہ گروپ تھا جو ایک جہادی گروپ ہے جس میں شامل زیادہ تر تاجک نسلی گروہ شامل ہیں، اس کا تعلق ازبکستان کی اسلامک موومنٹ ہے جو طالبان کے قریب ہے۔
اپریل کے آخر میں اسی طرح کے ایک اور واقعے میں تاجک سیکیورٹی سروسز نے افغانستان سے ملک میں آنے والے دو دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کی اطلاع دی، بدھ کو جی کے این بی نے کہا کہ ہلاک افراد بھی جماعت انصار اللہ گروپ کے رکن تھے۔
تاجکستان وسطی ایشیا کے ان پانچ ممالک میں سے ایک ہے جو کبھی سوویت یونین کا حصہ تھے، تاجکستان نے طالبان کے خلاف سخت ترین لائحہ عمل اپنایا ہے اور افغان اپوزیشن کے ارکان کی میزبانی کی ہے۔
اس نے افغانستان کے ساتھ اپنی ایک ہزار 300 کلومیٹر طویل سرحد پر گشت بھی بڑھادیا ہے، 1991 میں اپنی آزادی کے بعد سے تاجکستان کو متعدد عسکریت پسند گروپوں کا سامنا رہا ہے۔