آئی پی پیز کو 10 برسوں میں کی گئی ادائیگیوں کی تفصیلات طلب
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی نے آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو گزشتہ دس برسوں کے دوران کی گئی ادائیگیوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیر صدارت سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس ہوا، اجلاس کے دوران بجلی بلز میں حالیہ اضافے کے معاملے پر غور کیا گیا، کمیٹی نے سیکریٹری پاور اور چیئرمین نیپرا کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کیا۔
قائمہ کمیٹی نے نگران وزیر توانائی اور سیکریٹری توانائی کو طلب کرلیا، چیئرمین نے کہا کہ وزیر اور سیکریٹری کہاں ہیں؟ انہیں بلائیں، کمیٹی نے فوری طور چیئرمین نیپرا کو بھی طلب کر لیا۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ ٹیرف عوام کی پہنچ سے باہر ہوچکا، چیئرمین نیپرا کیوں غیر سنجیدگی دکھا رہے ہیں، کمیٹی نے چیئرمین نیپرا کو صوبائی ممبران سمیت طلب کرلیا۔
ارکان کمیٹی نے کہا کہ باقی ایجنڈا مؤخر کر دیں، بلز کا ایجنڈا سر فہرست رکھا جائے،کے الیکٹرک سے تعلق رکھنے والے حکام نے کہا کہ بجلی کے بلوں میں اضافے کے بعد کمپنی کی تنصیبات پر حملے ہو رہے ہیں، کے الیکٹرک انفرا اسٹرکچر کی حفاظت، امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اجلاس ہو رہے ہیں۔
ارکان کمیٹی نے کہا کہ اس وقت بجلی بلز میں اضافے کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہیں، ملک سول نافرمانی کی طرف جارہا ہے، نیپرا اور پاور ڈویژن غیر سنجیدگی دکھا رہے ہیں۔
قائمہ کمیٹی نے خود مختار پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو گزشتہ دس برسوں کے دوران کی گئی ادائیگیوں کی تفصیلات طلب کرلیں، کمیٹی نے آئی پی پیز کو دس سال کے دوران کی گئی ادائیگیوں کا ریکارڈ فراہم نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔
ارکان کمیٹی نے کہا کہ آئی پی پیز کو ادائیگیوں کی دس سالہ تفصیل دی جائے، آئی پی پیز نے غلط بلنگ کی ہے، دیکھنا چاہتے ہیں کس بنیاد پر ادائیگیاں ہوئیں، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سی پی پی اے کے پاس ریکارڈ نہیں تو ادائیگیاں کس طرح کی گئیں، پورے پاور سیکٹر کا آئی پی پیز نے بھٹہ بٹھادیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے ملک بھر میں بجلی کے زائد بلوں کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا تھا جب کہ سیاسی جماعتوں اور تاجروں نے ملک کے دیگر حصوں میں احتجاج اور شٹرڈاؤن ہڑتال کی تھی۔
آئی ایم ایف کی ناراضی اور عوام کے عتاب سے بچنے کی کوششوں کے دوران حکومت کو انتہائی پیچیدہ صورتحال کا سامنا رہا، نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس میں نگران سیٹ اَپ نے اس معاملے پر بے بسی کا اظہار کیا جب کہ بجلی کے بلوں کی اقساط میں ادائیگی کی تجویز بھی آئی ایم ایف کی منظوری کے بغیر قابل عمل تصور نہیں کی جاسکتی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز ڈان کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کپیسٹی چارجز کی بھاری ادائیگیوں کے باعث رواں برس کے آخر تک آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو واجب الادا رقم اب 20 کھرب روپے تک پہنچ چکی ہے۔
ٹیکس اور اربوں روپے کے لائن لاسز کی وجہ سے مجموعی مالیاتی اثرات بھی بتدریج مہنگے بلوں کی صورت میں بجلی کے صارفین کو منتقل کیے جارہے ہیں۔
پاور ڈسٹری بیوشن کمپنی (ڈسکو) کے ایک سابق چیف ایگزیکٹو افسر، صلاحیت کی ادائیگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوئی بھی ان اہم مسائل کے بارے میں نہیں سوچ رہا ہے جو صارفین پر مہنگے بلوں کی وجہ سے بہت زیادہ مالی دباؤ ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاور سیکٹر کے ملازمین کو مفت یونٹس ایک بہت ہی معمولی بات ہے، کیونکہ صلاحیت کی ادائیگیاں 20 کھرب روپے تک پہنچ گئی ہیں، تکنیکی اور تجارتی نقصانات اور متعدد ٹیکس بھی فی یونٹ کی شرح میں بڑے پیمانے پر اضافے کا باعث بنے ہیں۔