پاکستان

’مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت وطن واپس لوٹ کر عوام کا سامنا کرے‘

پارٹی قیادت کی لندن میں موجودگی اچھا تاثر نہیں چھوڑ رہی، نگران حکومت آنے کے فوراً بعد شہباز شریف لندن پہنچ گئے، نواز شریف پہلے ہی وہاں موجود ہیں، پارٹی عہدیدار

مسلم لیگ (ن) کی زیرِ قیادت مخلوط حکومت (پی ڈی ایم) کے دورِ اقتدار میں کیے جانے والے فیصلوں کی قیمت بجلی کے بھاری بلوں کی صورت ادا کرنے پر ملک بھر کے عوام کی جانب سے مسلم لیگ (ن) شدید غصے اور تنقید کی زد میں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ہم روزانہ اپنے حلقوں میں ہوتے ہیں، ہم اس (بڑھتے اخراجات پر عوامی غصے) کا سامنا کر رہے ہیں، ہم لوگوں سے بحث کر رہے ہیں، اپنا نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں اور تنقید کا سامنا کر رہے ہیں، ہم بھاگ نہیں رہے یا لوگوں کا سامنا کرنے کے لیے کسی کی آڑ نہیں لے رہے،۔ ہم میدان میں ہیں، صورتحال چاہے اچھی ہو یا بری، ہم اس کا سامنا کر رہے ہیں۔

لیکن ملک میں جاری مہنگائی اور معاشی بحران پر عوام کا غصہ عروج پر پہنچ چکا ہے، مسلم لیگ (ن) کے سابقہ اتحادیوں نے کسی نہ کسی طریقے سے اپنے آپ کو عوام کے ہم آواز بنانے کی کوشش میں پی ڈی ایم حکومت کے آخری ایام میں اٹھائے گئے اقدامات سے خود کو علیحدہ کر لیا ہے۔

خواجہ آصف نے تسلیم کیا کہ معاشی اور سیاسی دونوں لحاظ سے صورتحال سنگین اور تشویشناک ہے لیکن ان کی پارٹی اس سے پہلے کئی طوفانوں کا سامنا کر چکی ہے، انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہم نے پیپلز پارٹی کے ساتھ دشمنی کا سامنا کیا، مشرف دور بھی دیکھا، ہاں لوگ ہم پر تنقید کر رہے ہیں لیکن ہم ان کی شکایات سن رہے ہیں اور اگر موقع دیا جائے تو ہم اس صورتحال سے بالکل نکل سکتے ہیں۔

لیکن خواجہ آصف کے تمام ساتھی ان سے متفق نہیں ہیں، پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنما سمجھتے ہیں کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی لندن میں موجودگی اچھا تاثر نہیں چھوڑ رہی، نگراں سیٹ اپ کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد شہباز شریف لندن پہنچ گئے اور بڑے شریف اور نواز شریف 2019 سے ہی لندن میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک اہم رکن نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے لندن میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری کے ساتھ میاں صاحب اور شہباز صاحب کی تصویر دیکھی اور سوچا کہ کس ذہین نے یہ تصاویر جاری کردیں؟

انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت کی ملک سے روانگی کی جانب توجہ مبذول کرانا غلط ہے، سابق وزیر اعظم اور پارٹی رہنما کی حیثیت سے شہباز شریف کو فوری واپس آنا چاہیے، انہیں یہاں آکر لوگوں کو بتانا ہوگا کہ وہ آج ان مشکلات کا کیوں سامنا کر رہے ہیں، اس وقت ملک چھوڑ کر جانا کوئی ذمہ دارانہ عمل نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم (پاکستان میں موجود پارٹی قیادت) یہاں ان چیزوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو ہم نے محدود وقت میں حاصل کیں، انہیں بھی کرنی چاہیے، کوئی بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ پارٹی کی اعلیٰ اعلیٰ قیادت کو ملک میں عوام کے سوالات کا سامنا کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم 16 ماہ حکومت میں تھے، ہمیں عوام کو بتانا چاہیے کہ ہماری کارکردگی کیا تھی، ہم نے آج عوام کے مسائل حل کیوں نہیں کیے؟ ہم اپنے آپ کو حقیقت سے الگ نہیں کر سکتے، اگر ہم آج لوگوں کے سوالوں کا جواب نہیں دیں گے تو وہ ہمیں بیلٹ باکس میں جواب دیں گے، یہ کرنا ضروری ہے۔

سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی حالیہ چند ہفتوں کے دوران برطانیہ میں رہے، تاہم جب اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے کے لیے اُن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستان جا رہے ہیں۔

اسحٰق ڈار سے صحافیوں نے بڑھتے ہوئے اخراجات اور روپے کی قدر میں کمی کے بارے میں متعدد سوالات کیے لیکن انہوں نے محض یہی جواب دیا کہ پارٹی نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے سیاسی قیمت ادا کی۔

انتخابی بیانیہ

مسلم لیگ (ن) کے چند رہنما تسلیم کرتے ہیں کہ آنے والے مہینوں میں پارٹی کے انتخابی بیانیے کے حوالے سے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے کوئی واضح سمت نہیں ہے لیکن پارٹی کے سینئر اراکین واضح ہیں کہ ان کا ثابت شدہ ٹریک ریکارڈ انہیں طوفان سے گزارلے گا۔

احسن اقبال نے کہا کہ بنیادی سوال جو ہمیں لوگوں سے پوچھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ 2018 میں جب پاکستان ٹیک آف کر رہا تھا تو ہمیں کریش لینڈ پر کس نے مجبور کیا؟

انہوں نے کہا کہ ہماری موجودہ پریشانی کی جڑیں پچھلے 16 مہینوں میں نہیں ہیں بلکہ 2018 کے اس حادثے میں ہیں، اگر آپ نیچے کی طرف گر رہے ہیں اور رفتار کم کرنے کے لیے بریک لگاتے ہیں، تب بھی آپ گریں گے، اگر ہم اقتدار نہ سنبھالتے تو پاکستان آئی ایم ایف کے ان معاہدوں کی بدولت دیوالیہ ہو جاتا جس کا عمران خان نے ہمیں پابند کیا تھا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ نواز شریف اکتوبر میں پاکستان واپس آئیں گے کیونکہ جب اسٹین ہاپ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ اعلان کیا گیا تو وہ اپنے بھائی شہباز شریف کے ساتھ کھڑے تھے۔

انہوں نے کہا کہ یقیناً ہمیں اپنے گزشتہ برس کے اقدامات کی قیمت خود ادا کرنی ہوگی، ہم نے اس وقت انتخابات کا مطالبہ نہیں کیا تھا اور حکومت کرنے کا فیصلہ کیا، شاید کچھ وقت گزرنے کے بعد اس بارے میں بحث کی جاسکتی ہے کہ یہ فیصلہ درست تھا یا نہیں۔

آرمی چیف کی تاجروں کو انٹربینک ریٹ میں ’شفافیت کو فروغ‘ دینے کی یقین دہانی

ندا یاسر اور سعدیہ امام سمیت شوبز شخصیات کا بجلی کا بل کتنا آیا؟

اسرائیل کا تل ابیب میں فسادات میں ملوث اریٹیریا کے ایک ہزار باشندوں کو ملک بدر کرنے پر غور