نقطہ نظر

’بارش کے وقفے میں شاید قسمت بھارت سے روٹھ گئی‘

فاسٹ باؤلرز کی واپسی ہوئی تو انڈین ٹیم جو 300 سے زائد رنز بناتی نظر آرہی تھی، 266 پر ہی ڈھیر ہوگئی۔ اشان کشان اور ہاردک پانڈیا نے اچھی اننگز کھیلیں لیکن دونوں ہی سنچری مکمل نہ کر سکے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان ایشیا کپ 2023ء میں کل کھیلا جانے والا میچ بارش کی نذر ہوگیا۔ بھارت نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 266 کا اسکور بنایا۔ بھارتی اننگ کے آغاز میں بارش نے میچ میں خلل ڈالا لیکن یہ وقفہ مختصر ہی رہا تاہم اننگ کے اختتام پر بارش کی وجہ سے میچ میں ایک مرتبہ پھر وقفہ کرنا پڑا۔ یہ وقفہ اتنا طویل ثابت ہوا کہ میچ کے ساتھ ہی ختم ہوا۔

کل کے میچ میں بلاشبہ پاکستانی فاسٹ باؤلرز نے بھارتی بلے بازوں پر اپنی دھاک بٹھا دی۔ دو تین سال ہو چلے کہ نہ صرف پاکستانی کرکٹ شائقین بلکہ کرکٹ کے سبھی شائقین کو شاہین آفریدی کے پہلے اوور کی وکٹ کی عادت سے ہوگئی ہے۔ ون ڈے ہو یا ٹی20، بیٹسمین چاہے کوئی بھی ہو، شاہین آفریدی کے ہاتھ میں موجود نئے سفید گیند سے بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ بھارت کے خلاف ایشیا کپ کے میچ میں شاہین پہلے اوور میں کئی بار وکٹ حاصل کرتے کرتے رہ گئے۔ گیند نے ان سائڈ ایج لیا مگر وکٹوں کے پاس سے گزر گئی، پیڈز پر لگی تو ذرا اونچی لگی اور جب روہت شرما نے گیند ہوا میں اچھالی تو فخر زمان ایک مشکل کیچ پکڑنے میں ناکام رہے۔

قسمت بھارت کے بیٹسمینوں کے ساتھ تھی لیکن بارش کے وقفے میں شاید قسمت ان سے روٹھ گئی۔ شاہین آفریدی نے نیپال کے خلاف وکٹیں تو حاصل کی تھیں مگر ردھم کچھ خاص نہ تھا لیکن بھارت کے خلاف میچ میں ردھم، سوئنگ اور کنٹرول سب واپس آچکا تھا۔ روہت شرما کو پہلے آؤٹ سوئنگ سے کنفیوز کیا اور پھر ٹریڈ مارک شاہین ڈیلیوری نے روہت شرما کی وکٹیں اڑا دیں۔ کوہلی پاکستان کے خلاف کئی بڑے اسکور بنا چکے ہیں اور اس بار بھی کافی امیدیں تھیں کہ کوہلی بڑا اسکور کریں گے لیکن شاہین کی ایک اور عمدہ گیند کوہلی کے بلے کے اندرونی کنارے سے ٹکراتی ہوئی وکٹوں میں جاگھسی۔

دوسری جانب سے نسیم شاہ بہت عمدہ لائن اور لینتھ کے ساتھ باؤلنگ کر رہے تھے، گیند میں سوئنگ بھی موجود تھی لیکن قسمت نسیم شاہ کے ساتھ نہ تھی اور وہ ابتدا میں وکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ حارث رؤف کی آمد ہوئی تو رنز کی رفتار تیز ہوگئی لیکن اسی دوران حارث رؤف نے دو وکٹیں بھی حاصل کر لیں اور یوں پاکستان کو بھارت پر واضح برتری حاصل ہو چکی تھی۔ بھارتی ڈریسنگ روم میں بیٹھے روہت شرما اور کوچ راہول ڈریوڈ بھی کافی پریشان نظر آرہے تھے۔

یہیں سے اشان کشان اور ہارڈک پانڈیا کی اس شراکت کا آغاز ہوا جو بھارت کو کھیل واپس لے آئی۔ شدید دباؤ کے باوجود دونوں نے بہت عمدہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور دونوں کا بھرپور ساتھ پاکستانی فیلڈرز نے بھی دیا۔ افغانستان اور نیپال کے خلاف چند دن پہلے بہترین فیلڈنگ کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑی جیسے فیلڈنگ کرنا ہی بھول چکے تھے۔ یہاں تک کہ پاکستانی ٹیم کے بہترین فیلڈرز شاداب خان اور امام الحق کے ہاتھوں سے گیند پھسل رہی تھی۔

شاندار بیٹنگ اور ناقص فیلڈنگ کے ساتھ اس پارٹنرشپ کے آگے بڑھنے میں اہم کردار کپتانی کا بھی رہا۔ بابر اعظم نے دونوں جانب سے اسپنرز کو طلب کر لیا اور یوں دونوں بیٹسمینوں کو کریز پر جم جانے کا موقع مل گیا۔ کمنٹری باکس میں بیٹھے سابق کھلاڑی ہوں یا سوشل میڈیا پر موجود شائقین، سبھی کی ایک ہی خواہش تھی کہ بابر اعظم ایک اینڈ سے فاسٹ باؤلرز کے ساتھ اٹیک کریں۔ سبھی یہ چاہتے تھے کہ پاکستانی کپتان بھارتی ٹیم کو مکمل پچاس اوورز کھلانے کے بجائے چالیس اوورز میں آل آؤٹ کرنے کی کوشش کریں۔

ایک وقت میں یہ بھی لگ رہا تھا کہ شاید بارش کی وجہ سے بھارتی ٹیم کی اننگ مکمل نہ ہو سکے اور شاید پاکستانی فاسٹ باؤلرز کے کافی اوورز باقی بچ جائیں۔ لیکن نہ سابق کھلاڑیوں اور کرکٹ شائقین کی خواہشات کا بابر اعظم پر کوئی اثر ہوا اور نہ ہی پاکستانی ڈریسنگ روم کی جانب سے اس بارے میں کوئی پیغام آیا۔

اس دوران یہ بھی لگا کہ شاید بابر اعظم اسپنرز کے اوورز جلد از جلد ختم کروانا چاہتے ہیں۔ یہ اندیشہ بھی تھا کہ اگر آخری اوورز میں اسپنرز کو باؤلنگ دینا پڑی تو زیادہ اسکور ہی نہ پڑ جائے۔ لیکن کیا اس اندیشے کا سدِباب ٹیم سلیکشن میں کرنا ممکن نہیں تھا؟ آپ کو یاد ہی ہوگا کہ ٹی20 ورلڈکپ 2022ء میں پاکستان بمقابلہ بھارت میچ میں بھی پاکستانی ٹیم تین فاسٹ باؤلرز کے ساتھ میدان میں اتری تھی۔ اس میچ میں پاکستانی ٹیم منیجمینٹ کو چوتھے فاسٹ باؤلر کی کمی اتنی محسوس ہوئی کہ زمبابوے کے خلاف اگلے میچ میں پاکستانی ٹیم چار فاسٹ باؤلرز کے ساتھ میدان میں اتری۔ لیکن کیا یہ بات اتنی آسانی سے بھلا دی جانے والی تھی؟

وننگ کمبینیشن برقرار رکھنا ایک عمدہ حکمت عملی ہوتی ہے لیکن کیا وننگ کمبینیشن برقرار رکھتے ہوئے مخالف ٹیم کی کمزوری اور طاقت کو بھی بھلا دیا جاتا ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ میچ سری لنکا میں تھا اور وہاں اسپنرز کی کارکردگی عموماً بہتر رہتی ہے لیکن ساتھ ہی کیا یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ آپ کی مخالف ٹیم کس قسم کے باؤلرز کے خلاف مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے۔ آپ کا میچ انگلینڈ، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ کے ساتھ ہوتا تو تین فاسٹ باؤلرز شاید کم نہ لگتے لیکن بھارت اور شاید دیگر ایشین ٹیموں کے خلاف بھی پاکستان کو چار فاسٹ باؤلرز کے ساتھ ہی میدان میں اترنا چاہیے۔

فرض کریں آپ نواز کی جگہ کسی فاسٹ باؤلر کو کھلا دیتے اور آپ کو زیادہ اسپن اوورز کی ضرورت پڑ بھی جاتی تو شاداب خان کے ساتھ آپ کے پاس آغا سلمان اور افتخار احمد موجود تھے۔ کپتان کی مدد کے لیے ٹیم ڈائریکٹر، ہیڈ کوچ، منیجر اور کئی دیگر لوگ موجود ہیں لیکن ایک بات جو باہر بیٹھے لوگ سمجھ سکتے ہیں وہ اتنے تجربہ کار لوگ جانے کیوں نہیں سمجھ پا رہے؟

چار فاسٹ باؤلرز کھلانے سے یا اشان کشان اور ہارڈک پانڈیا کی پارٹنرشپ کے آغاز پر ایک اینڈ سے فاسٹ باؤلر لگانے سے یہ تو یقینی نہیں تھا کہ بھارتی ٹیم 200 یا 225 پر ڈھیر ہو جاتی لیکن اس کا امکان بڑھ جاتا۔ فاسٹ باؤلرز کی واپسی ہوئی تو انڈین ٹیم جو 300 سے زائد رنز بناتی نظر آرہی تھی، 266 پر ہی ڈھیر ہوگئی۔ اشان کشان اور ہارڈک پانڈیا نے اچھی اننگز کھیلیں لیکن دونوں ہی سنچری مکمل نہ کر سکے۔

کسی کو لگتا ہے کہ 267 کا ہدف پاکستانی بیٹسمینوں کے لیے مشکل ہو سکتا تھا اور اچھا ہوا کہ بارش کی وجہ سے شکست سے بچ گئے تو وہیں بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جو سوچ رہے تھے کہ پاکستانی ٹیم کے پاس میچ جیتنے کا بہت اچھا موقع تھا، جو ضائع ہو گیا۔ اب دونوں ٹیموں میں سے بہتر کون ہے، اس کا پتا تو اگلے اتوار کو ہی چلے گا، جب یہ دونوں ٹیمیں اگلے راؤنڈ میں مدمقابل ہوں گی لیکن ایک بات یقینی ہے کہ شائقین کرکٹ بارش کی وجہ سے ایک عمدہ تفریح سے محروم رہ گئے۔

شائقین کرکٹ کے ساتھ ساتھ ماہرین کرکٹ بھی دیکھنا چاہتے تھے کہ بابر اعظم اس دباؤ والے میچ میں کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن اس کے لیے ابھی کچھ انتظار کرنا ہوگا۔ اس نتیجے کے بعد پاکستانی ٹیم اگلے راؤنڈ میں پہنچ چکی ہے جبکہ انڈیا اور نیپال کا میچ ناک آؤٹ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

پاک-بھارت میچ بارش کی نذر ہوا اور اس خدشے کا اظہار اس وقت کے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ نجم سیٹھی نے بہت پہلے کر دیا تھا۔ جب بھارت کی جانب سے پاکستان آنے سے انکار ہوا اور کسی بھی صورت پاکستان نہ آنے کا فیصلہ ہوا تو نجم سیٹھی نے بہت کوشش کی کسی طرح یہ ٹورنامنٹ پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں کروایا جاسکے۔ نجم سیٹھی نے اس وقت بھی یہی کہا تھا کہ سری لنکا میں بارش کی وجہ سے ٹورنامنٹ متاثر ہو سکتا ہے۔ لیکن بھارت کے زیر اثر بنگلہ دیش اور سری لنکا نے متحدہ عرب امارات میں شدید گرمی کا بہانہ کرتے ہوئے ٹورنامنٹ سری لنکا میں رکھوا لیا اور اب سری لنکا میں ہونے والے دو میچوں میں سے ایک میچ بارش کی وجہ سے بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو چکا ہے۔ دیکھیں آگے کیا دیکھنے کو ملتا ہے۔

شہزاد فاروق

ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔