پاکستان

چوہدری پرویز الہٰی لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر رہائی کے بعد ایک مرتبہ پھر گرفتار

پرویز الہٰی کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حکم پر 3 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا ہے اور انہیں جیل منتقل کیا جارہا ہے، اسلام آباد پولیس
|

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صدر چوہدری پرویز الہٰی کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے رہا کیے جانے کے بعد گھر جاتے ہوئے پولیس نے پھر گرفتار کرلیا۔

اسلام آباد پولیس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر جاری بیان میں کہا کہ پرویز الہٰی کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حکم پر 3 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا ہے اور انہیں جیل منتقل کیا جارہا ہے۔

ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد کی جانب سے جاری حکم نامے کے مطابق پی ٹی آئی کے صدر پرویز الہی کی گرفتاری کو 3 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ پرویز الہٰی پولیس، انٹیلیجنس رپورٹ کے مطابق پرویز الہٰی امن و امان کی صورت حال کونقصان پہنچانے میں ملوث رہے ہیں۔

ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے کہا کہ پرویز الہٰی پی ٹی آئی کے صدر ہیں اور اگر انہیں آزاد چھوڑا گیا تو وہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو امن و امان کی صورت حال خراب کرنے کے لیے اکسا سکتے ہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ ماضی میں بھی پی ٹی آئی کے کارکنان قانون اپنے ہاتھ میں لے کر امن وامان کی صورت حال کو شدید نقصان پہنچا چکے ہیں، امن و امان کی صورت حال کو نقصان پہنچانے پر پرویز الہٰی کے خلاف متعدد مقدمات بھی درج ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انٹیلیجنس اداروں کے مطابق پرویز الہٰی امن و امان کی صورت حال کے لیے خطرہ ثابت ہوں گے، انٹیلیجنس اداروں کے مطابق پرویز الہٰی قانون نافذ کرنے والے اداروںکے خلاف منصوبے بنا چکے ہیں۔

ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے کہا کہ اسلام آباد پولیس، انٹیلیجنس بیورو کی جانب سے پرویز الہٰی کو 3 ایم پی او کے تحت 30 دن گرفتار رکھنے کی تجویز ہے لیکن پرویز الہٰی کو 15 دن کے لیے 3 ایم پی او کے تحت قید میں رکھنے کا حکم دیتا ہوں۔

اس سے قبل چوہدری پرویز الہٰی کے صاحبزادے مونس الہٰی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں کہا تھا کہ ہائی کورٹ کے حکم اور جج کی ہدایت کے بعد پولیس سمیت عدالت کی سیکیورٹی کو انہیں گھر لے جا رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ان کی گاڑی جیسے ہی ہماری گلی میں داخل ہوئی، اس سے روکا گیا اور اغوا کیا گیا۔

مونس الہٰی نے کہا کہ اگر عدالتوں کی اس طرح توہین ہوسکتی ہے تو انہیں اس کا باقاعدہ اعلان کرنا چاہیے۔

مونس الہٰی نے ایکس پر ایک ویڈیو بھی جاری کی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سادہ لباس میں متعدد افراد پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے ساتھ سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کو گاڑی سے نکال کر لے جا رہے ہیں۔

اسی دوران وکیل لطیف کھوسہ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے، وہ گاڑی میں پرویز الہٰی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے تاہم مذکورہ افراد انہیں گاڑی سے باہر نکال کر چوہدری پرویز الہٰی تک پہنچ گئے۔

اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثوں اور سرکاری ٹھیکوں میں مبینہ گھپلوں کے الزام میں قومی احتساب بیورو (نیب) میں گرفتار سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور پی ٹی آئی کے صدر چوہدری پرویز الہٰی کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ میں پرویز الہٰی کی نیب میں گرفتاری کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس امجد رفیق نے کی، انہوں نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو رہا کیا جائے اور کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔

حکومت پنجاب نے پرویز الہٰی کو خطرے سے متعلق محکمہ انسداد دہشت گردی کا خط عدالت میں پیش کر دیا۔

جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے کہ نیب کو حکم دیا گیا تھا کہ پرویز الہٰی کو پیش کریں، پیش کیوں نہیں کیا گیا؟ جس پر وکیل نیب نے کہا کہ قومی احتساب بیورو چوہدری پرویز الہٰی کو پیش کرنے کے لیے تیار ہے لیکن پنجاب حکومت کا آج خط ملا ہے کہ پرویز الہٰی کی زندگی کو خطرہ ہے۔

انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ نیب نے چوہدری پرویز الہٰی کو پیش کرنے کے لیے پنجاب حکومت سے سیکیورٹی بھی مانگی ہے، جس پر پرویز الہٰی کے وکیل نے کہا کہ ہم نیب کو بلٹ پروف گاڑی دینے کے لیے تیار ہیں۔

ڈی آئی جی نے عدالت میں جمع تحریری جواب میں بتایا کہ بکتر بند اور بلٹ پروف گاڑیاں کچا آپریشن میں مصروف ہیں، اگر کچا آپریشن سے بکتر بند اور بلٹ پروف گاڑیاں واپس بلاتے ہیں تو ڈاکو واپس علاقے میں آسکتے ہیں۔

وکیل نیب نے عدالت کو بتایا کہ ہم بغیر سیکیورٹی چوہدری پرویز الہٰی کو پیش کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن کچھ ہو گیا تو ذمہ داری کس کی ہو گی؟

لاہور ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ چوہدری پرویز الہٰی کو ایک گھنٹے میں پیش کریں، جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے کہ اگر پرویز الہٰی کو پیش نہ کیا گیا تو ڈی جی نیب لاہور کے وارنٹ جاری کیے جائیں گے۔

بعد ازاں، عدالت نے سماعت ایک گھنٹے کے لیے ملتوی کر دی، لاہور ہائی کورٹ نے پرویز الہٰی کی درخواست پر کاروائی کے لیے سوا 12 بجے کا وقت مقرر کر دیا۔

دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو نیب نے عدالتی حکم پر پرویز الہٰی کو لاہور ہائی کورٹ پہنچا دیا۔

جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ چوہدری پرویز الہٰی کو بیٹھا رہنے دیں، انہیں وقت پر پیش نہیں کیا گیا ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری پرویز الہٰی کو رہا کرنے اور کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا حکم دے دیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز چوہدری پرویز الہٰی کو 2 بجے پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

پرویز الہٰی کی گرفتاری اور مقدمات

پرویز الہٰی پی ٹی آئی کے ان متعدد رہنماؤں اور کارکنوں میں شامل ہیں جنہیں 9 مئی کو ہونے والے ہنگاموں کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

انہیں پہلی بار یکم جون کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے ان کی لاہور رہائش گاہ کے باہر سے ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

اگلے ہی روز لاہور کی ایک عدالت نے انہیں مقدمے سے ڈسچارج کر دیا تھا لیکن اے سی ای نے انہیں گوجرانوالہ کے علاقے میں درج اسی طرح کے ایک مقدمے میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

اس کے بعد گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے انہیں 3 جون کو فنڈز کے غبن سے متعلق بدعنوانی کے دو مقدمات میں بری کر دیا تھا۔

مقدمے سے ڈسچارج ہونے کے باوجود اینٹی کرپشن اسٹیبلمشنٹ نے پھر پرویز الہٰی کو پنجاب اسمبلی میں ’غیر قانونی بھرتیوں‘ کے الزام میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

9 جون کو ایک خصوصی انسداد بدعنوانی عدالت نے اے سی ای کو غیر قانونی تعیناتیوں کے کیس کا ریکارڈ پیش کرنے کا ’آخری موقع‘ دیا تھا۔

اسی روز قومی احتساب بیورو حرکت میں آیا اور گجرات اور منڈی بہاالدین میں ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر غبن میں ملوث ہونے پر صدر پی ٹی آئی کے خلاف ایک اور انکوائری شروع کردی گئی۔

12 جون کو سیشن عدالت نے غبن کیس میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے پرویز الہٰی کی بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے اگلے روز لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے مذکورہ حکم کو معطل کردیا اور جوڈیشل مجسٹریٹ نے انہیں دوبارہ جوڈیشل لاک اپ بھیج دیا۔

20 جون کو پرویز الہٰی نے بالآخر لاہور کی انسداد بدعنوانی عدالت سے ریلیف حاصل کر لیا لیکن جیل سے رہا نہ ہو سکےکیونکہ ان کی رہائی کے احکامات جیل انتظامیہ کو نہیں پہنچائے گئے تھے۔

اسی روز ایف آئی اے نے ان پر، ان کے بیٹے مونس الہٰی اور تین دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام میں مقدمہ درج کیا۔

جس کے اگلے روز ایف آئی اے نے انہیں جیل سے حراست میں لے لیا اور منی لانڈرنگ کیس میں انہیں روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔

24 جون کو لاہور کی اسپیشل کورٹ سینٹرل نے سابق وزیراعلیٰ کی منی لانڈرنگ کیس ضمانت منظورکی تھی۔

تاہم 26 جون کو لاہور کی ایک ضلعی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں انہیں دوبارہ 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جس کے فوراً بعد ایف آئی اے نے انہیں کیمپ جیل کے باہر سے گرفتار کیا۔

12 جولائی کو لاہور کی سیشن عدالت نے غیر وضاحتی بینکنگ ٹرانزیکشنز کے کیس میں پرویز الہٰی کے جسمانی ریمانڈ سے انکار کے خلاف ایف آئی اے کی درخواست خارج کردی۔

اس کے دو روز بعد لاہور ہائی کورٹ نے پولیس اور اے سی ای کو پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کو کسی بھی نامعلوم کیس میں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

بعد ازاں 15 جولائی کو بینکنگ جرائم کی ایک عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کی کیمپ جیل سے رہائی کے احکامات جاری کیے تھے۔

تاہم انہیں رہا نہیں کیا گیا تھا اور پولیس نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنما کے خلاف غالب مارکیٹ تھانے میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مانیٹری پالیسی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس منعقد کرنے کی رپورٹس بے بنیاد ہیں، اسٹیٹ بینک

چینی اور دالوں کی قیمتیں مزید بڑھنے سے صارفین کی مشکلات میں اضافہ

تصویر بنواتے وقت پاکستانی پرچم نہ ہونے پر ارشد ندیم کی وضاحت