سپریم کورٹ کے جج کا پارلیمنٹ سے ’بد نیتی‘ منسوب کرنے پر اظہار تاسف
جسٹس سید منصور علی شاہ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ نیب قوانین میں ترمیم پر پارلیمنٹ کو ’دائرہ اختیار کی مشق‘ پر بددیانتی کا مرتکب قرار دینا پارلیمانی جمہوریت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ تین ججوں پر مشتمل اس بینچ کا حصہ تھے جس نے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اگست 2022 میں قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) میں کی گئی ترامیم کو چیلنج کرنے والی درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہم غیر منتخب 17 لوگ (ججز)، 25 کروڑ عوام کے نمائندوں کی جانب سے بنائے گئے قانون کو صرف اس صورت میں چھو سکتے ہیں جب یہ آئین کے آرٹیکل 8 سے متصادم ہو جو بنیادی حقوق سے متعلق ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اس تاثر کے خلاف ریمارکس دیے کہ ترمیم کے تحت 50 کروڑ روپے تک کی بدعنوانی کے الزامات پر قومی احتساب بیورو (نیب) نوٹس لے گا، اس کا مطلب ہے کہ ایک ملزم جس نے اس حد سے کم کی کرپشن کی ہے، اس کو کوئی پوچھ نہیں سکتا، اس کو کوئی سزا نہیں ملے گی، انہوں نے کہا کہ اس ملزم کا مقدمہ کسی اور فورم پر چلایا جا سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے حیرت کا اظہار کیا کہ جب پارلیمنٹ اپنی دانشمندی کے ساتھ یہ چاہتی ہے تو ہم پارلیمنٹ کے ساتھ کسی بددیانتی کو کیسے منسوب کر سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیا عدالت پارلیمنٹ کو روک سکتی ہے اگر وہ یہ نتیجہ اخذ کرے کہ تحقیقات بہت مہنگی تھی اور کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
لیکن عمران خان کے وکیل خواجہ حارث احمد نے استدلال کیا کہ یہ عدالت پارلیمنٹ کو دائرہ اختیار کی رنگا رنگ مشق سے روک سکتی ہے کیونکہ کرپشن بنیادی حقوق کو متاثر کرتی ہے، خاص طور پر جب کہ ماضی میں سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل کی دفعہ 184(3) کے تحت عوامی پیسے کے ضیاع پر نوٹس لے چکی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کہنا چاہتے ہیں کہ رنگین مشق اس وقت ہوتی ہے جب کہ نیب قانون میں ترامیم کی وجہ سے ملزم بری ہو جاتا ہے‘۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے کہا کہ وہ ان فیصلوں کا حوالہ دیں جس میں ’دائرہ اختیار کی رنگین مشق‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کی جانب سے ’دائرہ اختیار کی رنگین مشق‘ کی کسوٹی پر قوانین کا جائزہ لے سکتی ہے اگر اس سے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’بنیادی نکتہ اب بھی بنیادی حقوق ہے اور یہ ہی وہ نکتہ ہے جو ہم نیب قوانین میں ترامیم کو چیلنج کرنے والی پٹیشن کی گزشتہ کئی سماعتوں کے دوران تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔