پاکستان

بجلی کے بلوں میں ٹیکسز و دیگر چارجز کےخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر

مہنگے بلوں نے ملک میں تشویشناک صورتحال پیدا کر دی ہے اور لوگوں کی اکثریت بجلی کے بل ادا کرنے سے قاصر ہے، درخواست گزار

ایک بیوہ نے رواں ماہ بجلی کا زائد بل موصول ہونے پر سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ وہ متعلقہ حکام کو حکم دے کہ بلوں پر عائد ٹیکسز، چارجز اور سیس کو علیحدہ کرکے خود مختار پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) سے وصول کیا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سعیدہ بیگم نے اپنے وکیل محمد وقاص ملک کے ذریعے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ مدعا علیہان کو حکم دیا جائے کہ وہ فرسودہ ڈیوائسز استعمال نہ کریں بلکہ ان کے سسٹم کو انورٹر ٹیکنالوجی سے تبدیل کریں۔

انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ قانون سازوں، ایگزیکٹو، عدلیہ اور محکمہ بجلی کے ملازمین سے بجلی اور پیٹرول/ڈیزل کی مفت فراہمی کی سہولت بھی واپس لی جائے۔

درحقیقت درخواست گزار نے گزشتہ پی ڈی ایم کی حکومت کی طرف سے پرائیویٹ پاور اینڈ انفرااسٹرکچر بورڈ (ترمیمی) ایکٹ 2023 میں کی گئی ترامیم کو چیلنج کیا۔

درخواست گزار نے نشاندہی کی کہ مہنگے بلوں نے ملک میں تشویشناک صورتحال پیدا کر دی ہے اور لوگوں کی اکثریت بجلی کے بل ادا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ وہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے علاوہ پیداواری لاگت، انکم ٹیکس، اضافی ٹیکس، مزید ٹیکس، غیر منصفانہ سلیب وغیرہ کو برداشت کرتے ہیں۔

درخواست میں وفاقی حکومت، سیکریٹری انرجی اینڈ پاور ڈویژن، نیپرا، پرائیویٹ پاور اینڈ انفرااسٹرکچر بورڈ اور وزارت دفاع کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ پڑوسی ممالک میں ٹیکسوں کی وصولی اور بجلی پیدا کرنے کی لاگت کا موازنہ کیا جائے تو یہ یہاں سے ہم آہنگ نہیں ہے، مزید کہا کہ درخواست گزار حکومت کی توانائی کی پالیسیوں سے متاثر ہوئی اور اذیت و بے بسی سے گزر رہی ہے، عوام بشمول درخواست گزار مکمل طور پر بے حال ہو چکے ہیں۔

درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ مختلف افراد کی خودکشی اور احتجاج کے واقعات پر غور کیا جائے، انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں نیند میں ہیں کیونکہ انہوں نے سیاسی فائدے کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا لیکن مفاد عامہ کے لیے کبھی عدالت نہیں گئیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ آج بھی ان (سیاسی جماعتوں) کا واحد مطالبہ انتخابات اور اقتدار کی منتقلی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں لانے والے عوام کبھی ان کی ترجیح نہیں ہوتے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ جب ملک ایک نازک مرحلے سے گزر رہا ہے بلکہ ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے، ایئر کنڈیشن حتیٰ کہ راہداریوں، سرکاری دفاتر میں ونڈو ایئر کنڈیشنرز سمیت فرسودہ ایئر کنڈیشننگ سسٹم کا استعمال اور پرانے زمانے کے بلب، ٹیوب لائٹس اور ہیٹر کا اب بھی استعمال جاری ہے، ان کو ختم کیا جائے۔

درخواست گزار نے کہا کہ پاکستان کا وجود ایک فلاحی ریاست کے طور پر ختم ہو گیا بلکہ آئی پی پیز کے آنے سے تجارتی ادارے میں تبدیل کر دیا گیا۔

سعیدہ بیگم نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بجلی کے بل میں اضافہ اور ٹیکسوں کی وصولی ہی ملکی معاملات چلانے کا واحد ذریعہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے پرائیویٹ پاور پروڈیسرز کو تمام ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیا ہے اور اس کے بجائے عام لوگوں پر سیس عائد کرنے پر توجہ مرکوز کی جو بلاجواز اور سخت ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ لائن لاسز اور چوری کا ذمہ دار متعلقہ حکام کو ٹھہرایا جائے، انہوں نے مزید کہا کہ عجیب بات ہے کہ حکام کی ملی بھگت سے چوری کی گئی بجلی کی قیمت عام لوگوں سے وصول کی جائے۔

الیکشن کمیشن کا فروری کے وسط تک انتخابات کرانے کا ’وعدہ‘

امریکا: فلوریڈا میں ایڈالیا طوفان سے نظام زندگی درہم برہم، سڑکیں تالاب بن گئیں

دنیا میں پہلی بار محض 7 منٹ میں کینسر کا علاج ممکن