کراچی: شارع فیصل پر آنے والا شیر چڑیا گھر منتقل، مالک سمیت 5 ملزمان کی ضمانتیں منظور
محکمہ وائلڈ لائف سندھ نے کراچی کے علاقے شارع فیصل پر عائشہ باوانی کالج کے قریب سڑک پر آنے والے شیر کو کراچی چڑیا گھر منتقل کردیا ہے، جبکہ گرفتار ہونے والے مالک سمیت پانچ ملزمان کی مقامی عدالت نے ضمانتیں منظور کرلیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز ایک گاڑی میں غیر قانونی طور پر لے جایا جانے والا شیر عائشہ باوانی کالج کے قریب اپنے مالک کی تحویل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو کر شارع فیصل پر آگیا تھا، جس سے مسافروں اور پیدل چلنے والوں میں خوف وہراس پھیل گیا جبکہ پولیس اور محکمہ جنگلی حیات شیر کو پکڑنے کے لیے پہنچ گئے تھے۔
بعد ازاں شیر کو رکھوالوں کی مدد سے پکڑ کر محکمہ جنگلی حیات کے حوالے کیا گیا، تاہم سندھ کے چیف وائلڈ لائف کنزرویٹر جاوید مہر کے مطابق جنگلی جانور پالتو تھا۔
واقعے کے بعد شیر کے مالک، جس کی شناخت شمس الحق کے نام سے ہوئی، کو پولیس نے گھر کے چار ملازمین سمیت حراست میں لے لیا تھا۔
آج وائلڈ لائف کے انسپکٹر اعزاز علی نوندنی کی طرف سے ملزمان کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ درج کی گئی ہے۔
ڈان ڈاٹ کام کو موصول ایف آئی آر کی کاپی کے مطابق چیف سندھ وائلڈ لائف ایکٹ 2020 کی دفعہ بشمول سیکشن 21، 32 اور 50 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ کو 29 اگست کی شام 6:45 بجے اطلاع ملی کہ شمس اور ان کے چار ملازمین سوزوکی میں شیر اور ایک کچھوے کو غیر قانونی طور پر لے جا رہے تھے جہاں شیر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور پھر شاہراہ فیصل پر دندناتے پھر رہا تھا۔
شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ موقع پر پہنچے جہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک عمارت کے کار پارکنگ ایریا میں شیر کو پکڑا گیا ہے، جسے بعد میں کراچی چڑیا گھر کے حوالے کر دیا گیا۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ ملزمان کو اس دوران صدر پولیس اسٹیشن کے ہاؤس افسر نے تحویل میں لے لیا۔
ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے چیف والڈ لائف کنزرویٹر سندھ جاوید مہر نے تصدیق کی کہ شیر کو چڑیا گھر منتقل کر دیا گیا ہے اور جرم میں استعمال ہونے والی گاڑی بھی ضبط کرلی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیس کی سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کراچی جنوبی میں ٹرائل کورٹ کرے گی۔
دریں اثنا چڑیا گھر کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ جانور کو منگل کی رات دیر گئے ان کے حوالے کر دیا گیا اور اب اسے اس کے احاطے میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
اہلکار نے اندازہ لگایا کہ شیر کی عمر تین سال ہے جبکہ اس کی حالت ٹھیک ہے اور اسے کھانا کھلایا جا چکا ہے۔
بعد ازاں مقامی عدالت نے پانچ ملزمان کی ضمانتیں منظور کرلیں۔
پولیس نے پانچ ملزمان بشمول شمس الحق، یافح، عبید، غلام مرتضیٰ اور محمد نصیر احمد کو مقامی عدالت کے سامنے پیش کیا جہاں عدالت نے ہر ایک کی 2 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرلی۔
سندھ میں وائلڈ لائف قوانین
سندھ میں 3 برس قبل وائلڈ لائف کے حوالے سے سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ منیجمنٹ ایکٹ 2020 کے نام سے نیا قانون بنایا گیا تھا تاکہ پرندوں کی 326 اقسام، 107 اقسام کے رینگنے والے جانوروں اور دیگر 82 اقسام کے جانوروں کی حفاظت کی جاسکے۔
قانون کے تحت کسی بھی جانور کی نجی سطح پر پالنے کے لیے کئی سخت شرائط رکھی گئیں جبکہ ماضی میں منی چڑیا گھر بنانے کے لیے دو مراحل پر افسران سے اجازت نامہ لیا جاتا تھا اور اس میں بھی کسی قسم کے جانوروں کی تخصیص نہیں ہوتی تھی۔
شیر پالنے کے لیے 39 سخت شرائط رکھی گئی تھیں، جس میں مالک کو جانور کا ڈی این اے سرٹیفکیٹ بھی درکار ہوتا تھا جو ملک بھر میں ایک بڑا ادارہ ہی کرسکتا ہے۔
وائلڈ لائف ایکٹ 2020 کے تحت شیروں کی درآمد کے لیے کوئی نئی درخواست پر غور نہیں کیا جائے گا، پرمٹ میں بھی شہریوں کو رہائشی علاقوں میں شیر پالنے سے پابند کیا گیا تھا اور درخواست گزار کے لیے لازم ہے کہ وہ متعلقہ یونین کونسل، ٹاؤن کمیٹی اور کنٹونمنٹ بورڈ سے این او سی حاصل کرکے پیش کرے۔
ڈان کو اس وقت وائلڈ لائف کے ایک ماہر نے بتایا تھا کہ سندھ میں پالتو شیروں کی تعداد 100 سے زائد ہوسکتی ہے اور ان کی اکثریت کراچی میں ہے۔