سافٹ بال کھیل کر پسماندہ سوچ کو بدلنے والی تُلسی میگھوار
دریائے سندھ کے کنارے واقع جامشورو کی تحصیل کوٹری کے علاقے سادھو پاڑو میں ہوش سنبھالنے والی تلسی میگھوار نے پہلی بار ساتویں جماعت میں کھیلوں میں دلچسپی لی اور سافٹ بال کے ٹرائلز میں حصہ لینا شروع کیا۔ آج وہ 21 برس کی ہیں اور قومی ٹیم کا حصہ ہیں۔
وہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہیں اور اس بات پر فخر محسوس کرتی ہیں کہ وہ اپنے خاندان میں واحد لڑکی ہیں جس نے کھیلوں میں اپنا نام بنایا ہے۔ وہ سافٹ بال اور بیس بال کی جانی مانی کھلاڑی ہیں۔
تلسی بتاتی ہیں کہ ’میرے اسکول اور کالج کی زیادہ تر لڑکیوں کی یا تو شادی ہوگئی ہے اور وہ اپنے خاندان کی دیکھ بھال کررہی ہیں یا پھر وہ یونہی اپنے گھروں میں بیٹھی ہیں اور کوئی کام نہیں کررہیں‘۔ تلسی نے کوٹری گرلز کالج سے پری انجینیئرنگ میں انٹر میڈیٹ کیا ہے۔
وہ اپنے اسکول کے دنوں کو یاد کرتی ہیں جب سافٹ بال کے ٹرائلز کا آغاز ہوا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ٹرائلز کے بارے میں پہلے تو میں تشویش میں مبتلا تھی کیونکہ مجھے یقین نہیں تھا کہ آیا میری فیملی مجھے ان میں حصہ لینے دے گی یا نہیں۔ میرے والد پہلے ہی مجھے اسکول بھیجھنے پر لوگوں کی تنقید کا سامنا کررہے تھے‘۔
ان کے والد نے انہیں اسکول میں ٹرائلز میں حصہ لینے کی اجازت دی، جس پر وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنی زندگی میں جتنی کامیابیاں سمیٹی ہیں سب کا سہرا میرے والدین کو جاتا ہے‘۔
تلسی میگھوار کے والد ہرجی لال صحافی ہیں اور سندھی اخبار کے لیے کام کرتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میں نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوانے کا فیصلہ کیا تو میری اپنی برادری اور خاندان کے افراد نے میرے اس فیصلے پر تنقید کی۔
’میری برادری میں زیادہ تر لوگ اَن پڑھ ہیں۔ بدقسمتی سے ان میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش بھی نہیں۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں لڑکیوں کو اسکول بھیجنا ممنوع سمجھا جاتا ہے لیکن مجھے فخر ہے کہ میری بیٹی نہ صرف تعلیم حاصل کررہی ہے بلکہ کھیلوں میں بھی کافی سرگرم ہے‘۔
تلسی کے ہر میچ میں وہ اسٹینڈز میں بیٹھ کر اپنی بیٹی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
ہرجی لال کہتے ہیں کہ ’جو بچے ہمارے معاشرے میں اسکول جاتے ہیں ان کے والدین کھیلوں کی سرگرمیوں کو بےکار اور وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ لیکن بچوں خصوصاً لڑکیوں کو اپنی صلاحیتیں سمجھنے اور اپنے لیے خود راستے تلاش کرنے کے مواقع فراہم کیے جانے چاہیے۔
میری بیٹی بچپن سے ہی باصلاحیت تھی لیکن خدا کی دی ہوئی صلاحیتوں کو بھی سامنے آنے کے لیے مواقع کی ضرورت ہوتی ہے’۔
ٹرائلز کے نتیجے میں تلسی کی سلیکشن ہوگئی اور اسکول کی 3 ساتھی لڑکیاں بھی ان کے ساتھ 2016ء میں نیشنل وومنز سافٹ بال چیمپیئن شپ کے لیے صوبائی اسکواڈ کا حصہ بنیں۔ لیکن یہ تو صرف شروعات تھی۔
اس کھیل کی وجہ سے وہ پورا ملک گھوم چکی ہیں۔ وہ حیدرآباد، کراچی، لاہور، کوئٹہ، گجرانوالہ اور پشاور میں کھیل چکی ہیں اور جہاں جہاں انہوں نے کھیلا ہے وہاں سے تمغے، انعامات اور اعزازات حاصل کیے ہیں۔ دسمبر 2019ء میں انہیں چین میں سافٹ بال چیمپیئن شپ کھیلنے کے لیے منتخب کیا گیا لیکن کورونا وبا کے باعث پاکستان کی ٹیم چین نہیں جاسکی۔
تلسی پاکستان میں کھیل کے میدانوں کی کمی پر افسوس کا اظہار کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے ملک میں صحت مند جمسانی سرگرمیوں کی ضرورت ہے لیکن ہماری حکومت کھیلوں کی سرگرمیوں میں سب سے کم توجہ دیتی ہے۔ ہمارے پاس کھیلوں کی وزارت تو ہے لیکن وہ ضلعی سطح پر عمارتوں اور اسپورٹس کی سہولیات بہتر بنانے کے لیے کوئی کام نہیں کرتی‘۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’یہاں تمام توجہ صرف کرکٹ کو دی جاتی ہے۔ ہمارے پاس اس کے علاوہ اور بھی کھیل ہیں جوکہ کرکٹ کی طرح ہی اہم ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کھیلوں میں دلچسپی رکھتے ہوں گے لیکن کرکٹ میں نہیں۔ انہیں بھی موقع دیا جائے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں‘۔
تلسی کے مطابق کوٹری کھیلوں کے اعتبار سے کافی سرگرم شہر ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’ہم نے ماضی میں اس شہر میں مختلف کھیل جیسے فٹ بال، باڈی بلڈنگ، باکسنگ اور ہاکی کے مقابلے دیکھے ہیں‘۔
عائشہ ارم جوکہ حیدرآباد میں تلسی کی اسپورٹس ٹرینر ہیں، بتاتی ہیں کہ تلسی میگھوار اپنے علاقے میں کھیلوں کی سرگرمیوں کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ایک پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والی تلسی اب تک متعدد قومی مقابلوں میں حیدرآباد کی نمائندگی کرچکی ہیں۔ وہ سندھ میں سافٹ بال کو فروغ دینے میں سب سے اہم نام ہیں اور وہ دیگر لڑکیوں کو دکھاتی ہیں کہ اگر وہ یہ کام کرسکتی ہیں تو دیگر لڑکیاں بھی یہ کرسکتی ہیں‘۔
تلسی کے کالج سے 8 لڑکیوں کا سافٹ بال اور بیس بال ٹیموں میں سلیکشن ہوا لیکن انہوں نے خاندان کے مسائل کو وجہ بتاتے ہوئے ٹیمیں چھوڑ دیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ اکثر خواتین کھلاڑیوں کی جلد شادیاں ہوجاتی ہیں اور پھر وہ گھروں تک مدود ہوجاتی ہیں۔
لیکن تلسی نے ایک الگ راستے کا انتخاب کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں پراعتماد اور پُرعزم تھی۔ عزائم رکھنا کوئی غلط بات نہیں ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ یہاں دیگر لڑکیاں بھی اپنے مستقبل کے حوالے سے اچھے خواب دیکھیں‘۔
انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’میری والدہ بھی اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ لڑکیوں کو گھر سنبھالنا آنا چاہیے‘۔ لیکن جیسے ہی تلسی نے میچز میں کامیابی حاصل کرنا شروع کی، ان کی والدہ کی سوچ بھی تبدیل ہوگئی۔ اب تلسی جب بھی کسی مقابلے میں شرکت کرتی ہیں تو ان کی والدہ کی دعائیں ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔
تلسی نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’درحقیقت میری والدہ کی ان سخت الفاظ سے حوصلہ شکنی ہوتی تھی جو وہ میری تعلیم کے دوران ہماری کمیونٹی سے سنتی تھیں، اور یہاں تو میں کھیلوں میں حصہ لینے جارہی تھی‘۔
تلسی کہتی ہیں کہ وہ صرف قومی سطح پر کھیلوں میں عمدہ کارکردگی پیش کرکے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے بہت سے پسماندہ خیالات کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ وہ کورونا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کے موقع سے محروم ہونے پر افسردہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن میں پرعزم رہنے کی کوشش کرتی ہوں۔ بہرحال یہ میرے لیے صرف آغاز ہے۔ میں عالمی سطح پر ضرور کھیلوں گی۔
’میرا خیال ہے کہ ایک بار جب عورت کسی بھی قسم کی جسمانی سرگرمی کے لیے میدان میں اترتی ہے تو وہ اپنے راستے میں آنے والی ہر قسم کی سماجی رکاوٹوں اور زنجیروں سے خود کو آزاد کر لیتی ہے۔
’سچ تو یہ ہے کہ اس کھیل نے مجھے میری شناخت کے ساتھ ساتھ آزادی بھی دی ہے‘۔
تلسی میگھوار مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میری برادری کی وہ لڑکیاں جو گھر سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئیں، وہ فیکٹریوں میں یا دیگر جگہ کام کر رہی ہیں جبکہ میں اپنے خوابوں کو پورا کر رہی ہوں‘۔
یہ مضمون 27 اگست 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس akhterhafez@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔