پاکستان

عمران خان صرف ’اداروں کے خلاف انقلاب‘ لانا چاہتے ہیں، پرویز خٹک

چیئرمین پی ٹی آئی حکومت میں تھے تو ہمیں کہتے تھے جھوٹ اتنا زیادہ بولیں کہ سچ لگے، سربراہی پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز

خیبرپختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے الگ ہو کر نئی جماعت بنانے والے پرویز خٹک نے سابق وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ صرف ’اداروں کے خلاف انقلاب‘ لانا چاہتے ہیں۔

پشاور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارلیمنٹیرینز کے بانی پرویز خٹک نے کہا کہ عمران خان جب حکومت میں تھے تو قوم کو درپیش چینلجز سے نمٹنے کی حکمت عملی عاری تھے اور ہمیں کہتے تھے کہ جھوٹ بھی اتنا زیادہ بولیں کہ سچ لگے۔

انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو جو ہوا وہ درست نہیں تھا، پی ٹی آئی ایک مجرم پارٹی ثابت ہوسکتی ہے اور پابندی بھی لگ سکتی ہے۔

پرویز خٹک نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعریف کی اور کہا کہ جنرل باجوہ نے ہمارا بہت ساتھ دیا تھا جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی اپنی حکومت کی برطرفی کا الزام ان پر عائد کرتے رہے ہیں اور عدم اعتماد کا ذمہ دار بھی انہیں کو ٹھہرایا تھا۔

صحافیوں کو سابق وزیردفاع نے دعویٰ کیا کہ ’لیفٹننٹ جنرل(ر) فیض اور جنرل باجوہ نے انتخابات کا ماحول بنایا لیکن عمران خان نہیں مانا اور جنرل باجوہ نے بھی آخر میں ہاتھ کھڑے کر دیے اور کہا میں اور نہیں کرسکتا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے لیے چار مقدمات مسائل کھڑے کرسکتے ہیں، جن میں توشہ خانہ، سائفر، منی لانڈرنگ، القادر ٹرسٹ اور 9مئی کا کیس شامل ہے، نو مئی سب سے خطرناک کیس ہے جو فوجداری کیس بنتا جا رہا ہے۔

پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ سائفر اور القادر ٹرسٹ معاملے پر کابینہ میں آواز اُٹھائی تھی اور تحریک انصاف میں 60 فیصد الیکٹیبلز کو میں لے کر آیا تھا لیکن چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس کوئی پروگرام نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی صرف اداروں کے خلاف انقلاب لانا چاہتے ہیں۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے پرویز خٹک کی بنیادی رکنیت جولائی میں اس وقت ختم کردی تھی جب وہ اراکین کو پارٹی چھوڑنے کے لیے اکسانے کے الزام پر جاری شوکاز نوٹس کا جواب دینے میں ناکام رہے تھے۔

پرویز خٹک کی رکنیت ختم کرنے کے اعلامیے میں پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ پرویز خٹک شوکاز نوٹس کا مقررہ وقت میں اطمینان بخش جواب دینے میں ناکام رہے۔

اس سے دو ہفتے قبل پرویز خٹک نے پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جبکہ پارٹی کے خلاف 9 مئی کے واقعات پر کریک ڈاؤن جاری تھا کیونکہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد مظاہروں کے دوران سول اور عسکری تنصیبات پر توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کیا گیا تھا۔

ملک میں 9 مئی کو پیش آنے والے واقعات کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کے قریبی ساتھی بشمول فواد چوہدری، علی زیدی، عمران اسمٰعیل، شیریں مزاری سمیت متعدد رہنماؤں نے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے تحریک انصاف سے راہیں جدا کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اسی طرح 8 جون کو پاکستان تحریک انصاف کے سابق سینئر رہنما جہانگیر خان ترین نے نئی سیاسی جماعت ’استحکام پاکستان‘ کی بنیاد رکھ دی تھی۔

استحکام پاکستان کے نام سے نئی سیاسی جماعت کا اعلان کرتے ہوئے سابق صوبائی وزیر علیم خان نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد ہم نے نئی جماعت کے قیام کا فیصلہ کیا تھا۔

پاکستان کا افغانستان کے خلاف ایک روزہ سیریز میں کلین سوئپ، آخری میچ میں 59 رنز سے فتح

خاتون فٹبالر کا ہونٹوں پر بوسہ لینے پر ہسپانوی فٹبال فیڈریشن کے سربراہ معطل

الیکشن کمیشن کی انتخابات کے حوالے سے مشاورت کیلئے ایم کیو ایم، جماعت اسلامی کو دعوت