برطانیہ میں مردہ حالت میں برآمد 10 سالہ لڑکی کو ماضی میں تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا انکشاف
برطانیہ میں اپنے گھر سے مردہ حالت میں برآمد 10 سالہ بچی سارہ شریف کے والد کو پاکستان میں پولیس تلاش کر رہی ہے، جس پر ماضی میں مبینہ تشدد کے بارے میں خوفناک تفصیلات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔
واضح رہے کہ کم سن لڑکی کی لاش 10 اگست کو مقامی ٹیکسی ڈرائیور ملک عرفان شریف کے ووکنگ کونسل کے گھر سے ملی تھی، برطانوی پولیس نے کہا تھا کہ لاش ملنے کے وقت گھر میں کوئی اور شخص موجود نہیں تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سابق پڑوسی جیسیکا، جن کی بیٹی بھی اسی اسکول میں زیر تعلیم تھی، نے دعویٰ کیا کہ سارہ شریف کو ’چہرے پر زخم‘ کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔
جیسیکا نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ سارہ خوش اور پراعتماد بچی تھی لیکن جیسے ہی لڑکی کی موت کی خبر منظر عام پر آئی تو جیسیکا کو ان کی صاحبزادی نے بتایا کہ سارہ شریف کے زخم واضح تھے۔
دونوں لڑکیاں بائفلیٹ میں سینٹ میری کے پرائمری اسکول میں تھیں، جب جیسیکا کی بیٹی نے دعویٰ کیا کہ اس نے زخم دیکھے۔
جیسیکا نے بتایا کہ ایسٹر کی تعطیلات سے قبل وہ اسکول میں موجود تھی اور اس کے چہرے اور گردن پر زخموں کے نشانات تھے، ان کا کہنا تھا کہ میری بیٹی نے سارہ شریف سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے، اس نے بتایا کہ وہ موٹر سائیکل سے گر گئی تھی ۔
انہوں نے بتایا کہ اگلے روز ٹیچر نے اعلان کیا کہ (سارہ) نے اسکول چھوڑ دیا ہے اور وہ گھر پر تعلیم حاصل کریں گی۔
جیسیکا نے یہ بھی بتایا کہ یہ وہ وقت تھا جب شریف فیملی کام کے لیے سرے منتقل ہوگئی اور ان کی بیٹی نے اُس لڑکی کو پھر کبھی نہیں دیکھا۔
قبل ازیں، پولیس نے رپورٹ کیا تھا کہ پوسٹ مارٹم سے موت کی وجہ کا پتا نہیں چل سکا لیکن لڑکی پر زخموں کے متعدد نشانات تھے۔
رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چائلڈ سروسز سارہ شریف کے مردہ حالت میں ملنے قبل اس کے بارے میں جانتی تھی، لیکن یہ معلوم نہیں کہ وہ اس کے بارے میں کیوں جانتی تھیں، اس حوالے سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔
جہلم پولیس نے اسکائی نیوز کو بدھ کو بتایا تھا کہ سارہ کے انکل عمران شریف پولیس کی حراست میں ہیں۔
جہلم پولیس کے مطابق عمران شریف نے دعویٰ کیا کہ سارہ سیڑھیوں سے گر گئی تھی اور اس کی گردن ٹوٹ گئی تھی، انہوں نے بتایا کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کے بھائی کہاں ہیں۔
انہوں نے پولیس کو بتایا کہ انہیں سارہ کے بارے میں عالمی میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا، میرے والدین نے بتایا کہ عرفان مختصر وقت کے لیے پریشانی کی حالت میں گھر آیا، وہ کہہ رہا تھا کہ وہ (برطانوی حکام) ان کے بچوں کو ان سے دور لے کر جارہے ہیں۔
اس پر الزام ہے کہ اس نے افسران کو بتایا کہ بینش بچوں کے ساتھ گھر پر ہے، سارہ سیڑھیوں سے گر گئی اور اس کی گردن ٹوٹ گئی، بینش پریشان ہو گئی اور عرفان کو فون کیا۔
بینش کے اہل خانہ مبینہ طور پر میرپور میں رہتے ہیں جبکہ عرفان کی فیملی جہلم میں رہائش پذیر ہے، پولیس نے جوڑے اور 5 افراد کی تلاش میں دونوں کے گھروں میں چھاپہ مارا لیکن کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔
لاہور ہائیکورٹ نے درخواست نمٹا دی
دریں اثنا، لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے عرفان کے والد شریف ملک کی جانب سے دائر درخواست نمٹا دی، انہوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔
جسٹس صداقت علی خان نے ڈسٹرکٹ پولیس افسر و دیگر کو طلب کیا تھا کیونکہ شریف ملک نے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ پولیس ان کے بیٹوں کو حراست میں لینا چاہتی ہے۔
پولیس نے لاہور ہائی کورٹ کو بتایا کہ انٹرپول نے ملزمان کی تحقیقات کے لیے مدد کی درخواست کی ہے اور عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ ملزمان سے قانون کے مطابق ڈیل کیا جائے گا۔