جمعیت علمائے اسلام اور پی ٹی آئی وفود کی چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات، انتخابات پر مشاورت
جمعیت علمائے اسلام(ف) اور پاکستان تحریک انصاف کے وفود نے چیف الیکشن کمشنر کی دعوت پر ان سے الگ الگ ملاقات کی جس میں انتخابی روڈمیپ کے حوالے سے مشاورت کے ساتھ ساتھ حلقہ بندیوں پر بھی گفتگو کی گئی۔
الیکشن کمیشن سے جاری بیان کے مطابق انتخابی روڈمیپ کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے لیے الیکشن کمیشن کا پہلا اجلاس چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں کمیشن کے اراکین کے علاوہ سیکریٹری الیکشن کمیشن اور دیگر سینئر افسران نے بھی شرکت کی۔
اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو آج دوپہر 2 بجے اور اس کے بعد جمعیت علمائے اسلام(ف) کے نمائندگان کو سہ پہر 3 بجے کے لیے مدعو کیا گیا تھا تاکہ انتخابی روڈ میپ پر ان کا مؤقف لیا جائے۔
کمیشن کے اجلاس میں تحریک انصاف کی جانب سے ڈاکٹر بابر اعوان، بیرسٹر علی ظفر، عمیر نیازی اور علی محمد خان نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔
جمعیت علمائے اسلام(ف )کی جانب سے مولانا عبدالغفور حیدری، جلال الدین، مولانا درویش، کامران مرتضیٰ اور دیگر افراد نے شرکت کی۔
پی ٹی آئی کے وفد نے اس بات پر زور دیا کہ انتخابات کا انعقاد آئین کے مطابق 90 دن کے اندر یقینی بنایا جائے کیونکہ اس وقت حلقہ بندی کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ پارٹی کے مختلف گرفتار رہنماؤں اور کارکنوں کی فوری رہائی یقینی بنائی جائے، پارٹی کو سیاسی ریلیوں کی اجازت دی جائے اور پی ٹی آئی کو دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح سیاست میں یکساں مواقع مہیا کیے جائیں۔
الیکشن کمیشن نے بیان میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے دونوں جماعتوں کے نمائندگان کو یقین دلایا کہ الیکشن کمیشن کی یہ کوشش ہے کہ الیکشن کا انعقاد جلد ازجلد ہو اور یقینی بنائے گا کہ انتخابات میں تمام جماعتوں کو یکساں مواقع میسر ہوں۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ انتخابات میں شفافیت یقینی بنائی جائے گی اور سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا یہ عمل آئندہ بھی جاری رہے گا۔
تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے الیکشن کمیشن میں اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خوش آئند بات ہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو مدعو کیا اور یہ ملاقات نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملاقات میں الیکشن کمیشن کے سامنے تین نکات رکھے جس میں پہلا یہ تھا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ 90 دن میں الیکشن کرائے اور اس مدت میں شفاف انتخابات کے لیے پی ٹی آئی بھرپور تعاون کرے گے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت صوبوں کی سیٹیں درج ہیں اور مردم شماری پر عمل تب ہی ممکن ہے جب آرٹیکل 51 میں ترمیم کی جائے لہٰذا اس وقت الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کا اختیار نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے دوران دو وزرائے اعلیٰ نگران تھے اور ہمیں مردم شماری کی منظوری دینے والے نگران وزرائے اعلیٰ کا فیصلہ منظور نہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے میڈیا کو بتایا کہ ہم نے الیکشن کمیشن سے درخواست کی ہے کہ انتخابی مہم کے دوران پارٹی جھنڈے لہرانے کی اجازت دی جائے اور سب کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں، پی ٹی آٸی کے چیئرمین زیر حراست ہیں، ایسے ماحول میں یکساں مواقع کیسے دیے جا سکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کو کہا حلقہ بندیاں نہ کریں اس سے الیکشن کا عمل متاثر ہو گا جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہم حلقہ بندیاں کھلے دل سے کر رہے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے وفد سے ملاقات
الیکشن کمیشن سے ملاقات میں جمعیت علمائے اسلام(ف ) کے مشاورتی وفد نے مؤقف اختیار کیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن کا انعقاد آئین کا تقاضا ہے لیکن اب چونکہ مردم شماری کے نتائج سرکاری طور پر شائع ہو چکے ہیں لہٰذا الیکشن کمیشن کو پہلے حلقہ بندی کا عمل مکمل کرنا چاہیے تاکہ آئندہ انتخابات میں تمام سیاسی پارٹیوں، امیدواروں اور ووٹروں کو سہولت ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ انتخابی فہرستوں میں نئی مردم شماری کے مطابق ووٹروں کے درست اندارج کی ضرورت ہے اور کمیشن انتخابات سے قبل اس بات کو بھی یقینی بنائے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولنگ اسٹیشنوں کی فہرستیں بھی درست کی جائیں اور غیرجانب دار اور دیانت دار ریٹرننگ افسروں اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی تعیناتی بھی یقینی بنائی جائے۔
الیکشن کمیشن نے یقین دلایا کہ ہماری یہ کوشش ہے کہ انتخابات کا انعقاد جلد ازجلد ہو اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ انتخابات میں تمام جماعتوں کو یکساں مواقع میسر ہوں اور انتخابات کی شفافیت یقینی بنائی جائے۔
بعدازاں الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ آج الیکشن کمیشن نے جے یو آئی کو مشاورت کے لیے بلایا تھا جو ایک گھنٹے سے زائد دیر تک جاری رہی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن کو اپنا مؤقف دہرایا کہ ہم آئین کے دائرے میں شفاف انتخابات چاہتے ہیں اور کمیشن ایسے اقدامات کرے کہ 2018 کی تاریخ دہرائی نہ جائے۔
انہوں نے کہا کہ 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت بنی اس نے ملک کو تباہی کے دہانے پہنچایا لہٰذا ہم ایسے الیکشن چاہتے ہیں جس پر پوری قوم متفق ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری پورے ملک میں کی گئی اور آبادی میں اضافہ ہوا لہٰذا اسی تناظر میں مزید سیٹیں ملنی چاہئیں، بلوچستان کی آبادی میں اضافہ ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما نے مزید کہا کہ اگر پارلیمنٹ ہوتی تو قانون سازی کے ذریعے سیٹوں میں اضافہ ہوتا، رقبے کے لحاظ سے بلوچستان آدھا پاکستان ہے، اس لیے بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں کم ازکم 15 سیٹوں کا اضافہ ہونا چاہیے۔
امریکی سفیر کی چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات
دوسری جانب امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا سے ملاقات کی۔
امریکی سفیرنے پاکستان میں آزادانہ اورمنصفانہ انتخابات کے لیے حمایت کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ امریکا پاکستانیوں کے منتخب کردہ نمائندوں کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔
الیکشن کمیشن میں چیف الیکشن کمشنر سے ہونے والی ملاقات میں امریکی سفیر نے کہا کہ پاکستان کے مستقبل کے رہنماؤں کا انتخاب کرنا پاکستانی عوام کا کام ہے اور پاک امریکا تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پاکستانیوں کے منتخب کردہ نمائندوں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔
پی ٹی آئی کے رہنما رؤف حسن نے چیف الیکشن کمشنر سے امریکی سفیر کی ملاقات پر تنقید کی اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر جاری بیان میں کہا کہ ’امریکی سفیر اور چیف الیکشن کمشنر نے آئین اور اس کے تحت بننے والے قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے اور اس ملاقات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’امید کی جا رہی تھی کہ امریکا ایسے شخص کو قانونی حیثیت دینے کے لیے منظر پر آنے سے باز رہے گا جو آئین کی خلاف ورزی کی علامت کے طور پر پہچانا جاتا ہے، جو سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقررہ مدت میں انتخابات کرانے میں ناکام رہا ہے‘۔
چیف الیکشن کمشنر پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ آج پھر قومی انتخابات کو ناقص اور نامعقول بنیادوں پر ملتوی کرنے کی کوشش کر رہا ہے، امید ہے کہ صحیح اور غلط کے درمیان فرق برقرار رکھا جائے گا اور اسی مناسبت سے پالیسی کی تشکیل اور ان پر عمل درآمد کیا جائے گا’۔
پی ٹی آئی کے رہنما نے کہا کہ ’نظریہ خاص طور پر ایک ایسے ملک میں اہمیت کا حامل ہے جو اپنے وجود کے اس نازک موڑ پر اس نوعیت کے مسائل کے بارے میں انتہائی حساس ہے‘۔