پاکستان

پاکستان میں 2023 کی پہلی ششماہی میں روزانہ 12 بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے، رپورٹ

ایف آئی اے نے ڈارک ویب پر سرگرمیوں کا سراغ لگایا جہاں گزشتہ 6 ماہ کے دوران فحش مواد کے کل 53 کیسز رپورٹ ہوئے، بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ادارے کی رپورٹ

بچوں کے حقوق کے لیےکام کرنے والی غیر منافع بخش تنظیم ’ساحل‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں جنوری سے جون 2023 تک اوسطاً 12 بچے روزانہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔

بچوں پر ہونے والے تشدد باالخصوص جنسی زیادتی پر کام کرنے والے ادارے ’ساحل‘ نے کہا ہے کہ سال 2023 میں اب تک بچوں سے زیادتی کے کُل 2 ہزار 227 واقعات پیش آئے ہیں۔

ساحل 1996 سے بچو ں پر ہونے والے تشدد خاص کر بچوں کے ساتھ ہو نے والی جنسی زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لیے کام کر رہا ہے، جس کا مقصد ایک ایسے معاشرے کو تشکیل دینا ہے جہاں ہر بچہ کسی بھی قسم کے تشدد یا جنسی تشدد سے محفوظ ہو۔

علاوہ ازیں ساحل جنسی تشدد کے شکار بچوں کو مفت قانونی اور نفسیاتی امداد فراہم کرتا ہے۔

اس سال بچوں سے جنسی ز یادتی، اغوا، گمشدگی اور کم عمری کی شادی کے واقعات کو شائع کرنے کے لیے کُل 86 قومی اور علاقائی اخبارات کی جانچ پڑ تال کی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2023 میں بچو ں سے زیادتی کے کُل 2 ہزار 227 واقعات رپورٹ ہوئے اور 2023 کے پہلے 6 ماہ میں 6 سے 15 سال کی لڑکیوں کے 457 واقعات ہوئے جبکہ لڑکوں کے 593 واقعات ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے ڈارک ویب پر سرگرمیوں کا سراغ لگایا جہاں گزشتہ چھ ماہ کے دوران فحش مواد کے کل 53 کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کُل 963 بچوں کے ساتھ حادثات یا تشدد کے کیس رپورٹ ہوئے، 760 بچوں کی اموات ہوئیں، 268بچوں کے ڈوبنے کے واقعات ہوئے، 148 بچوں کو قتل کرنے کے واقعات ہوئے، 144 بچے روڈ حادثات میں جاں بحق ہوئے اور 61 بچوں نے خودکشی کی۔

ساحل کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 کے پہلے چھ ماہ کے دوران 2 ہزار 531 ملزمان بچوں کے ساتھ زیادتی میں ملوث تھے اور زیادہ تر معاملات میں وہ متاثرین یا ان کے اہل خانہ سے متعلق یا ان کے جاننے والے پائے گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 912 واقعات میں بدسلوکی کرنے والے جاننے والے تھے جبکہ 498 واقعات میں اجنبیوں نے ایسے جرائم کیے جبکہ 215 بدسلوکی کے واقعات کا ارتکاب اجنبیوں اور جاننے والوں دونوں نے کیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جنوری اور جون کے درمیان رپورٹ ہونے والے 16 فیصد کیسز میں جرم زیادتی کرنے والے کی جگہ پر کیا گیا کیونکہ بدسلوکی کرنے والے معصوم بچوں کو پھنسا کر اپنی جگہ لے جاتے ہیں۔ تاہم، زیادہ تر معاملات میں جرم کی جگہ نامعلوم رہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادتی 31 فیصد واقعات میں سڑکوں پر، 11 فیصد واقعات میں متاثرہ کے مقام پر، 4 فیصد واقعات میں میدان میں اور عبادت گاہوں اور تعلیمی مقامات پر کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق تمام مقدمات میں سے 88 فیصد پولیس کے پاس رجسٹرڈ ہوئے جبکہ 25 مقدمات یا تو درج نہیں ہوئے یا پولیس نے اندراج سے انکار کیا۔

مزید یہ کہ 45 فیصد کیس دیہی علاقوں اور 55 فیصد شہری علاقوں سے رپورٹ ہوئے۔ صوبائی بریک ڈاؤن سے پتا چلتا ہے کہ سب سے زیادہ 74 فیصد کیسز پنجاب سے رپورٹ ہوئے، اس کے بعد سندھ سے 14 فیصد، اسلام آباد سے 7 فیصد، خیبر پختونخوا سے 3 فیصد اور بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سے باقی 2 فیصد کیسز رپورٹ ہوئے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل 21 مارچ 2023 کو ساحل کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سال 2022 میں ملک بھر میں 2 ہزار 123 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، گزشتہ سال کی نسبت بچوں پر تشدد میں 33 فیصد اضافہ ہوا، سال 2022 میں روزانہ کی بنیاد پر 12 سے زائد بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سال 2022 میں 81 بچوں کو جنسی تشدد کے بعد قتل کیا گیا جبکہ اسی سال بچوں کے اغوا کے ایک ہزار 834 کیسز رپورٹ ہوئے۔

ساحل کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اغوا ہونے والے میں 178 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور 6 سے 15 سال کی عمر کے بچوں کو زیادہ تر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بچوں کے گمشدگی کے 428 واقعات رپورٹ ہوئے اور کم عمری میں شادی کے کُل 46 کیسز رپورٹ ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق 47 فیصد واقعات دیہی جبکہ 54 فیصد واقعات شہری علاقوں سے رپورٹ ہوئے ہیں، تاہم بچوں پر تشدد کے زیادہ تر کیسز پنجاب سے رپورٹ ہوئے۔

’ضروری تھا‘ نویں جماعت میں لکھا تھا، خلیل الرحمٰن قمر کا انکشاف

توشہ خانہ کیس: ٹرائل اور سپریم کورٹ کے درمیان اسلام آباد ہائیکورٹ سینڈوچ بن چکا، چیف جسٹس عامر فاروق

لفظ تماشا: ’بیمار‘ اب الجھنے لگے ہیں طبیب سے