پاکستان

ہائیکورٹ میں زیرِ التوا معاملات میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، پاکستان بار کونسل

ماضی میں عدالتوں کو شریف کورٹس کہا جاتا تھا، ہم نہیں چاہتے کہ آج عوام اور وکلا عدالتوں کو کسی اور نام سے پکاریں، حسن رضا پاشا

پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس میں سزا سنائے جانے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں سپریم کورٹ کی جانب سے غلطیوں کی نشاندہی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہائی کورٹ میں زیرِ التوا معاملات میں کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔

سپریم کورٹ کے باہر گفتگو کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے کہا کہ عمران کی سزا کے خلاف مرکزی اپیل سپریم کورٹ میں زیر سماعت نہیں ہے، لیکن سپریم کورٹ کے جو ریمارکس گزشتہ روز ہم نے دیکھے اور سنے، ایسا لگا جیسے پوری اپیل کا فیصلہ ہوگیا۔

حسن رضا پاشا نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہائی کورٹ کے معزز ججز پر کوئی بھروسہ نہیں ہے، وہ بھی اتنے ہی معزز اور قابل احترام جج ہیں اور اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے دے رہے ہیں، یہ ہائی کورٹ کی ہموار کارروائی میں مداخلت کے مترادف ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ ہائی کورٹ اب کیا فیصلہ کرے گی؟ ایک مخصوص سیاسی جماعت کے وکلا کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ریمارکس بریت کے حکم کے مترادف ہیں، اگر ایسا ہوا تو کیا یہ سمجھا جائے گا کہ وہ سپریم کورٹ کے دباؤ کی وجہ سے بری ہوئے؟ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو کون سی اعلیٰ عدالت یا ماتحت عدلیہ ان ریمارکس کی روشنی میں کوئی اور فیصلہ دے سکتی ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ کا احترام کرتی ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ عدالت کا احترام مجروح ہو، ہائی کورٹ میں زیر التوا معاملات میں کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے، کیس میں کسی بھی طرح کی مداخلت دوسرے فریق کے ساتھ زیادتی سمجھی جائے گی۔

حسن رضا پاشا نے مثال دی کہ ہم پہلے بھی کئی کیسز میں دیکھ چکے ہیں کہ یہ آرڈر آتا ہے کہ ہم ہائی کورٹ سے اس طرح اور اس طرح سے فلاں کیس کا فیصلہ کرنے کی توقع رکھتے ہیں، تاہم کوئی ہدایات جاری نہیں کی جاتیں لیکن کل پہلی بار ہم نے محسوس کیا کہ ہدایات دی گئیں جو کہ نہیں ہونا چاہیے، ہم ایک بار پھر کہتے ہیں کہ کسی کے بھی ساتھ جانبدارانہ رویہ نہیں اپنایا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں عدالتوں کو ’شریف کورٹس‘ کہا جاتا تھا، ہم نہیں چاہتے کہ آج عوام اور وکلا عدالتوں کو کسی اور نام سے پکاریں، عدلیہ کو غیر سیاسی ہونا چاہیے اور اسے قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بار کونسل چاہتی ہے کہ سپریم کورٹ کا احترام اور عزت برقرار رہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ہم آئین کے بھی محافظ ہیں، ہم آئین کے بارے میں بات کرتے ہیں لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ تمام معاملات اس کے مطابق ہی چلیں۔

دریں اثنا پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ کیس میں اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی، جو تاحال اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس اپیل کا ابھی فیصلہ ہونا ہے جس میں یہ دیکھنا ہوگا کہ سزا صحیح ہوئی ہے یا غلط، یہ ہائی کورٹ کا اختیار ہے، کل سپریم کورٹ نے جو ریمارکس دیے ہیں وہ براہ راست زیریں عدالتوں اور ہائی کورٹس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹس اور لوئر کورٹس ماتحت عدالتیں ہیں، اگر اب ان دونوں نے اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ دیا تو ایسا لگے گا کہ جیسے انہوں نے سپریم کورٹ کی آبزرویشن پر توجہ نہیں دی، لہٰذا اس طرح کی آبزرویشن دینا قانونی یا اخلاقی طور پر درست نہیں ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے سامنے نہ تو کوئی اپیل اور نہ ہی کوئی ضمانت کی درخواست زیر التوا ہے، اپیل یا ضمانت کا فیصلہ ہائی کورٹ کو ہی کرنا ہے۔

ہارون الرشید نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے گزشتہ روز دی گئی آبزرویشنز آج تمام اخبارات میں چَھپ گئیں کہ جو سزا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے دی وہ غلط ہے، بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ تصور کرلیا کہ وہ سزا کے خلاف اپیل کی خود سماعت کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے ایسا کوئی معاملہ زیر التوا نہیں ہے، سپریم کورٹ کے بینچز کے خلاف ہم پہلے بھی اعتراضات اٹھا چکے ہیں کہ یہ بینچز کسی ایک پارٹی کی حمایت کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ رواں ماہ کے شروع میں توشہ خانہ کیس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کی جانب سے 3 سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیے جانے کے بعد چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو زمان پارک لاہور سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعد ازاں عمران خان نے اپنی سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، علاوہ ازیں انہوں نے کیس کو اُسی ٹرائل کورٹ کے جج کے پاس واپس بھیجنے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف بھی سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس نے انہیں سزا سنائی تھی۔

گزشتہ روز عمران خان کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں اپنی سزا کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں جن پر فی الحال مداخلت نہیں کریں گے، کل (آج) ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت دیکھیں گے۔

ملکی تاریخ میں پہلی بار انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 300 روپے سے تجاوز کرگیا

چہرے کی سرجری نہیں کروائی، سمجھ نہیں آتا لوگ کارتک آریان سے کیوں موازنہ کرتے ہیں، ارسلان خان

جاپان نے ایٹمی پلانٹ سے پانی چھوڑنا شروع کر دیا، چین کا سخت ردعمل