نقطہ نظر

سی پیک سیاحت: شاہراہِ ریشم سے شاہراہِ قراقرم تک (نویں قسط)

ایشیا اور یورپ کو ملانے والے ایک اہم ترین زمینی تجارتی راستہ اور معاشی، ثقافتی، سیاسی اور مذہبی روابط کا مرکز سمجھی جانے والی شاہراہِ ریشم کی داستان

اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


ہم راجہ بازار سے گزرکر جماعت خانہ بازار والے پل تک آگئے جو دریا کے دوسرے کنارے پر پہاڑ کے دامن میں موجود چھوٹی سی آبادی کو گلگت سے ملاتا ہے۔ دوسرے کنارے پر بھی ایک پہاڑ کھڑا تھا۔ ہم پل پر چلتے ہوئے دریا کو عبور کرکے اس پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے اور ویران سی سٹرک پر خراماں خراماں چلنے لگے۔

’یہاں سے آگے کہاں جائیں گے‘؟ باسط بولا۔

’لگتا ہے یہ سڑک آگے جاکر ہمارے ہوٹل کے قریب والے جڑواں پلوں تک جاتی ہے۔ ہم وہاں تک جاکر دوبارہ دریا پار کرلیں گے اور اپنے ہوٹل پہنچ جائیں گے‘، میں بولا اور ہم اس اندازے کے پیچھے چل دیے۔

جڑواں پل ابھی دور ہی تھے کہ ایک آواز نے ہمیں چونکا دیا۔

’دینیور۔۔۔ دینیور۔۔۔ دینیور۔۔۔‘

ریگزین کے چھجے والی ایک سوزوکی پک اپ دینیور کی طرف جارہی تھی۔ دینیور دریائے ہنزہ کے پار عین شاہراہ قراقرم پر ایک خوبصورت قصبہ ہے جہاں گلگت کا ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن بھی ہے اور شاہراہ قراقرم کی تعمیر میں اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے چینی محنت کشوں کی یادگار بھی ہے۔

ہم لپک کر اس سوزو کی پک اپ میں سوار ہوگئے۔ پک اپ تنگ سٹرک پر دوڑتی پہاڑ کی ڈھلوان کے ساتھ ساتھ مڑتی ہوئی دریائے گلگت سے دور ہوتی چلی گئی۔ 15، 20 منٹ بعد ہمارے سامنے ایک اور دریا آگیا۔ یہ دریائے ہنزہ تھا جو وادئ ہنزہ کی طرف سے بہتا ہوا آتا ہے اور یہاں پہنچ کر دریائے گلگت میں شامل ہوجاتا ہے۔

یہاں دریائے ہنزہ پر دنیا کا ایک عجیب و غریب اور انوکھا پل ہمارا منتظر تھا۔ دینیور کا یہ پل دریائے ہنزہ کے اوپر ایک عجیب خطرناک انداز میں معلق ہے۔ اس کی ساخت بڑی منفرد اور قدرے خوفناک ہے جس کی وجہ دریا کے دونوں کناروں کا ہم سطح نہ ہونا ہے۔ رسوں سے معلق اس طرح کے پل بالکل سیدھے اور ایسے مقامات پر بنائے جاتے ہیں جہاں دریا کے دونوں کنارے ہم سطح ہوں۔ لیکن یہاں پر دریا کا ایک کنارہ دوسرے کی نسبت خاصا اونچا ہے۔ چنانچہ پہلے کنارے سے تو پل بڑے بے ضرر انداز میں شروع ہوتا ہے، جبکہ دوسری طرف کے بلند کنارے پر ایک تنگ و تاریک سرنگ کا دہانہ گاڑی کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ اس سرنگ کی چوڑائی بس اتنی ہی ہے کہ ایک وقت میں صرف ایک چھوٹی گاڑی ہی اس میں سے گزر سکتی ہے۔

پل عبور کرکے ہماری سوزوکی پک اپ جیسے ہی سرنگ میں داخل ہوئی، ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ نظریں اندھیرے میں بھٹکنے لگیں تو ڈرائیور نے ہیڈ لائٹس جلادیں۔ کچھ دیر میں سرنگ ختم ہوئی تو جیسے دن نکل آیا اور مسافر جاگ گئے۔ یعنی اب ہم دریائے ہنزہ کو عبور کرکے دینیور میں داخل ہوچکے تھے۔

راولپنڈی سے گلگت آتے ہوئے جب جگلوٹ سے آگے گلگت شہر کے قریب پہنچتے ہیں تو شاہراہِ قراقرم شہر سے پہلے ہی دریائے گلگت کو ایک پل پر سے عبور کرکے دوسرے کنارے پر کوہِ قراقرم کی حدود میں داخل ہوجاتے ہیں اور وہیں قراقرم کا یہ پہلا قصبہ دینیور آجاتا ہے۔

ہم اس دینیور میں گلگت شہر میں سے ایک متبادل مگر تنگ راستے کے ذریعے آچکے تھے۔ گلگت سے ہنزہ جانے والی بڑی گاڑیاں تو شاہراہ قراقرم ہی کے ذریعے یہاں تک آتی ہیں، جبکہ چھوٹی گاڑیاں اُسی سرنگ والے پل سے گزر کر دینیور آجاتی ہیں جہاں سے ہم آئے تھے۔ یعنی یہ راستہ گلگت اور دینیور کے درمیان شارٹ کٹ ہے۔

سوزوکی شاہراہِ قراقرم پر آکر چند دکانوں کے پاس رک گئی۔ سڑک کے دونوں طرف گھنے سایہ دار درخت فرحت بخش ہوا میں لہر ا رہے تھے اور ان کی چھاؤں میں شاہراہِ قراقرم اطمینان سے لیٹی ہوئی تھی۔ بائیں طرف گلگت ریڈیو اسٹیشن کا اونچا ٹاور تھا۔ کھیتوں میں گندم کے سنہری خوشے لہلہا رہے تھے۔ کھیتوں سے پرے سرمئی پہاڑ تھے جن کی چوٹیوں سے بھاپ کی طرح اٹھتے بادل نیلے آسمان میں روئی کے گالوں کی طرح تیر رہے تھے۔ سٹرک کے برابر میں شفاف پانی سے لبریز ایک چھوٹاسا نالہ بہہ رہا تھا اور اس پُرسکون خاموشی میں اپنی مدھر قلقل بکھیر رہا تھا۔

اسی پُرسکون ماحول میں کھوئی کھوئی سی وہ قربانی کی یادگار بھی تھی۔ ایک وسیع احاطے کے گرد جالی دار دیوار میں سنہری گرِل والا ایک بارعب گیٹ تھا جس کے اندر بلند چبوترے پر ایک سفید چوکور مینار تھا۔ اس کی جڑ تک کشادہ سیڑھیاں جارہی تھیں۔ مینار کی سفید سطح چمک رہی تھی اور اس پر چینی حروف میں کچھ لکھا ہوا تھا۔

مینار کے پیچھے جو کچھ پھیلا ہوا تھا وہی شاہراہِ قراقرم کی عظمت کا گواہ تھا۔ یہاں سبز گھنے درختوں کی چھاؤں اور پھولوں کی چار دیواری میں گھرا ہوا ایک قطعہ تھا جس میں اس عظیم سڑک کی تعمیر میں جان سے گزرنے والے چینی محنت کشوں کی یادگار قبریں ایک خوبصورت ترتیب میں موجود تھیں۔ ان جانبازوں کی عظمت کو اردگرد کے پہاڑ جھک کر سلام کررہے تھے۔

گلگت بلتستان کو پاکستان اور چین کے ساتھ زمینی راستے سے جوڑنے کا اولین خیال 1950ء کی دہائی میں پاکستان میں چینی سفیر چینگ بائیو کا تھا۔ 1963ء میں اس حوالے سے دونوں ملکوں میں مذاکرات بھی ہوئے۔ 1965ء کی جنگ کے بعد جب پاکستانی آرمی چیف چین کی جانب سے دیے گئے دفاعی ساز و سامان اور تعاون کا شکریہ ادا کرنے گئے تو اس وقت بھی چینی صدر نے ایسی شاہراہ کی تعمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ،

’اگر پاکستان اور چین کے درمیان ایک اچھا زمینی راستہ ہوتا تو یہ امداد بہتر انداز میں پہنچ سکتی تھیں۔‘

چنانچہ 1966ء میں شاہراہِ قراقرم کی تعمیر کا آغاز ہوگیا اور اس کی تکمیل 1978ء میں ہوئی۔ 1300 کلومیٹر طویل اس شاہراہ کا تقریباً 800 کلومیٹر حصہ پاکستان میں جبکہ 300 کلومیٹر چین میں ہے۔ شاہراہِ قراقرم، شمالی علاقہ جات سے چین تک پھیلے ہوئے علاقے کے باشندوں کا صدیوں پرانا خواب تھی۔ اس سے قبل ان بلند و بالا پہاڑوں پر سفر کے لیے صرف وہی راستے دستیاب تھے جو پہاڑوں کی گھاٹیوں میں چرنے والی بھیٹر بکریوں اور خچروں کی آمد و رفت سے وجود میں آئے تھے۔ کوئی مربوط راستہ نہ ہونے کے باعث یہاں کے باسی نہ صرف مہذب دنیا سے کٹے ہوئے تھے بلکہ پہاڑ کی دوسری طرف والی اپنی قریبی آبادیوں تک سے ناواقف تھے۔

1959ء میں ضلع سوات کے قصبے بشام اورضلع دیامر کے قصبے چلاس کو سڑک کے ذریعے آپس میں ملانے کے لیے دریائے سندھ کے کنارے کنارے شاہراہ سندھ طاس کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کیونکہ گلگت تک تو انگریزوں کے دور میں ہی فوکر طیارے آنا شروع ہوگئے تھے لیکن اس وقت تک سوات سے چلاس تک کا علاقہ سوائے خچروں اور گھوڑوں کے ہر قسم کے ذریعہِ نقل و حمل سےمحروم تھا۔ آنے والے برسوں میں شاہراہ سندھ طاس کا یہی منصوبہ پھیلتا چلاگیا حتیٰ کہ 1967ء میں چین کے تعاون سے شاہراہِ قراقرم کی تعمیر کا آغاز ہوگیا۔

سطح سمندر سے ڈھائی ہزار فٹ بلند حویلیاں سے لے کر 16 ہزار فٹ بلند درّہ خنجراب تک، اور پھر اس سے بھی آگے چینی سرحدی چیک پوسٹ پیر علی تک پھیلی ہوئی اس سڑک کی تعمیر میں 25 ہزار انسانوں نے حصہ لیا۔

سنگلاخ چٹانوں کو بارود سے اڑا اڑا کر گزرنے کے راستے نکالے گئے اور یوں دنیا کی یہ خطرناک ترین سڑک وجود میں آئی۔۔۔ خطر ناک اور ہمہ وقت خطرناک۔۔۔ تعمیر سے پہلے بھی۔۔۔ تعمیر کے دوران بھی۔۔۔ اور تعمیر کے بعد بھی۔ دنیا کا آٹھواں عجوبہ شاہراہ قراقرم عظیم ہے کیونکہ اس کی عظمت میں 804 کلومیٹر کی طوالت پر 804 انسانوں کی قربانی شامل ہے۔ یعنی ہر ایک کلومیٹر پر ایک انسانی جان کا نذرانہ۔

شاہراہِ قراقرم کو شاہراہِ ریشم بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس شاہراہ کی ایک بنیاد چین سے یورپ تک جانے والا قدیم بین الاقوامی تجارتی راستہ ’شاہراہ ریشم‘ بھی ہے۔ شاہراہ ریشم یا سِلک رُوٹ (Silk Route) مجموعی طور پر قدیم زمانے کے اُن تجارتی راستوں کو کہا جاتا ہے جو چین کو ترکی، بحیرہِ روم اور یورپ سے ملاتے تھے۔ شاہراہِ ریشم کے یہ راستے مجموعی طور پر 8 ہزار کلو میٹر پر پھیلے ہوئے تھے۔

شاہراہ ریشم کی اصطلاح پہلی بار 1877ء میں معروف جرمن سیاح فرڈیننڈ وان رشتھوفن (Ferdinand von Richthofen) نے استعمال کی تھی۔ شاہراہ ریشم کے ذریعے چین، ایشیائی و یورپی ممالک کے درمیان ریشمی کپڑے، مصالحہ جات، اناج، اوزاروں اور ہتھیاروں وغیرہ کی تجارت ہوتی تھی۔ چونکہ اس راستے کا سب سے نمایاں سامانِ تجارت ریشم ہی تھا اس لیے رشتھوفن نےاسے شاہراہِ ریشم کا نام دیا۔ زمینی راستوں اور دریائی و بحری گزر گاہوں کا یہ معروف سلسلہ دوسری صدی قبل مسیح سے 18ویں صدی تک دنیا کی اہم ترین تجارتی گزر گاہ سمجھا جاتا تھا۔

شاہراہ ریشم پر اس زمانے کے کئی اہم شہر آتے تھے جن میں بلخ (افغانستان)، ثمرقند وبخارا (ازبکستان)، ٹیکسلا (پاکستان)، رے، نیشاپور، ہمدان (ایران)، دمشق (شام)، بغداد، موصل(عراق)، قسطنطنیہ، بورصہ، سمرنا (ترکی) اور سکندریہ(مصر) وغیرہ شامل ہیں۔

ریشم کا کپڑا سب سے پہلے چین میں تیار ہونا شروع ہوا۔ چینی روایات کے مطابق ریشم کا کپڑا پہلی مرتبہ تقریباً 3 ہزار سال قبل مسیح میں بننا شروع ہوا تھا۔ چین میں ریشم کو بہت قیمتی اور کامیاب چیز سمجھا جاتا تھا، چنانچہ اس کی تیاری کے عمل کو ایک طویل عرصہ تک خفیہ رکھا گیا تاکہ اس صنعت پر صرف چینیوں کی اجارہ داری قائم رہے۔

چین میں تیار کردہ ریشم دیگر ممالک میں تجارت کی غرض سے اور بادشاہوں کو قیمتی اور قابل قدر تحائف کے طور پر بھیجا جاتا تھا۔ منگول خانہ بدوشوں، ہندوستانی راجاؤں، ایرانی فرمانرواؤں، ترک سلاطین اور یورپی بادشاہوں کے لیے یہ بیش قیمت ریشمی لباس بہت مقبول تھے۔ اپنے ہلکے وزن اور بے حد منافع بخش ہونے کی وجہ سے بھی طویل فاصلے کی تجارت کے لیے ریشم مثالی تجارتی شے سمجھا جاتا تھا۔

پہلی صدی قبل مسیح میں ریشم کو یورپ میں متعارف کروایا گیا تو وہاں اسے بڑی شہرت ملی۔ ریشمی مصنوعات کو امارت اور عیش وعشرت کی نشانی سمجھا جانے لگا۔ رومی سلطنت میں اس کی شہرت نے چین اور یورپ کے درمیان ریشم کی تجارت کو خوب فروغ دیا۔ حتیٰ کہ چھٹی صدی میں ریشم بنانے کا فن ہندوستان اور ایران سے ہوتا ہوا یورپ تک بھی پہنچ گیا۔

ریشم کے علاوہ چین سے خوبصورت اور نفیس برتن بھی اسی راستے سے دنیا تک پہنچے۔ چینی مٹی کے نازک کھنک دار برتن بنانے کا راز بھی صرف چینیوں کے پاس تھا اور یہ بھی یورپی منڈیوں میں بہت مہنگے فروخت ہوتے تھے۔ اسی طرح چین کے دھاتی زیورات، کانسی کے نازک فریم والے آئینے، چھتریاں، ادویات اور خوشبویات وغیرہ بھی مشہور تھیں۔ پھر ان میں سب سے قابلِ ذکر چینی کاغذ بھی شامل تھا۔ سونا، کھالیں، چائے، چاول، اونی کپڑے، ہاتھی دانت، گینڈے کے سینگ، کچھوے کے خول، مصالحے، دھاتی مصنوعات، ہتھیار اور قیمتی پتھر وغیرہ بھی اہم سامانِ تجارت تھے۔

جہاں ہندوستان اپنے کپڑوں، مصالحوں، قیمتی پتھروں اور ہاتھی دانتوں کے لیے مشہور تھا، وہاں ایران اپنی نقرئی مصنوعات کے لیے معروف تھا۔ جہاں روم نے اس راستے سے ریشم، مصالحے، خوشبویات، زیورات، ہاتھی دانت اور چینی طروف حاصل کیے وہاں یورپی تصاویر اور پر تعیش سامان ایشیا بھیجا۔

یہ راستے وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے رہے۔ ملکی حالات، جغرافیائی تبدیلیوں اور مختلف ممالک میں دوستی و دشمنی کے مطابق تاجر اپنے راستے بدلتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتے تھے۔

تاجر اپنے کاروبار میں کامیابی کے لیے دوسرے علاقوں کی زبانیں بھی سیکھتے تھے اور وہاں شادیاں بھی کرلیتے تھے۔ یہ تاجر گھوڑوں، گدھوں اور اونٹوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ راستے میں کئی شہروں میں پڑاؤ ہوتے تھے جہاں ان کی خدمت کے لیے عمدہ سرائے اور مہمان خانے موجود ہوتے تھے۔

زمینی راستوں کے علاوہ تاجر سمندری راستے بھی استعمال کرتے تھے۔ تجارتی جہاز چینی ساحلوں سے نکل کر انڈونیشیا اور ملائیشیا سے ہوتے ہوئے بنگال اور ہندوستان کی بندرگاہوں تک پہنچتے اور مزید آگے بڑھتے ہوئے ایران، عراق، جزیرہ نمائے عرب اور افریقی ممالک تک پہنچ جاتے تھے۔

سمندری راستوں سے زیادہ تر تجارت چونکہ مصالحہ جات کی ہوتی تھی اس لیے سمندری تجارتی گزرگاہوں کو ’شاہراہِ مصالحہ جات‘ (Spice Route) بھی کہا جاتا تھا جن کے ذریعے مشرق بعید اور ہندوستان سے گرم مصالحے اور خوشبویات وغیرہ کی دنیا بھر میں تجارت ہوتی تھی جو آج بھی جاری ہے۔

مشہور چینی سیاح فاہیان اور ہیون سانگ نے بھی ان راستوں پر سفر کیے۔ ان کے سفر نامے اِن علاقوں کے بارے میں قیمتی معلومات سے بھر پور ہیں۔ یورپی سیاح مارکوپولو نے بھی اسی شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے دنیا کی مختلف تہذیبوں کا مشاہدہ کیا۔ مارکو پولو، وینس کا تاجر تھا جس نے 13ویں صدی کے اواخر میں چین تک پہنچنے کے لیے شاہراہ ریشم کےساتھ ساتھ سفر کیا تھا۔

دینِ اسلام کی اشاعت میں بھی ان تجارتی راستوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ مسلمان تاجروں نے ابتدائے اسلام میں ہی پیغامِ حق کو عرب سے، ہندوستان، چین، انڈونیشیا اور ملائیشیا تک پہنچایا۔ ہندوستان میں سب سے پہلے 7ویں صدی میں مسلمان تاجر پہنچے۔ سب سے پہلی مسجد مالابار کے علاقے میں 630ء میں قائم ہوئی۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا میں 8ویں صدی تک مسلمان تاجروں کے ذریعہ اسلام کا پیغام پہنچ چکا تھا۔ اسی طرح افریقہ اور وسط ایشیائی ریاستوں میں مسلمان تاجروں، صوفیا اور سیاحوں نے کثرت سے سفر کیے۔ ان کے ذریعے بھی اسلام کی ترویج ہوئی اور شاہراہِ ریشم پر موجود شہر اسلامی ثقافتی مراکز میں تبدیل ہوئے۔

چین سے آنے والی شاہراہِ ریشم پر سفر کرنے والے تجارتی قافلوں کے لیے ترکی میں سلطنتِ عثمانیہ کا دارالخلافہ بورصہ آخری پڑاؤ کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہاں وہ اپنا تمام سازو سامان فروخت کر دیتے تھے جسے ترکی کے علاوہ یورپ کے تاجر بھی ہاتھوں ہاتھ خریدتے تھے۔ پھر تاجر یہ سامان لے کر ’چناق قلعہ‘ کے مقام پر آبنائے گیلی پولی کو عبور کرکے ایشیا سے یورپ میں داخل ہوکر ملکوں ملکوں نکل جاتے اور ایشیا کے ریشم اور مصالحوں پر مشتمل اس سامانِ تجارت پر خوب منافع کماتے۔

تجارت کے ساتھ ساتھ شاہراہِ ریشم نے ثقافتوں اور مذاہب کو بھی ایک دوسرے سے جوڑا۔ لوگوں نے دور دراز علاقوں کے بارے میں جانا اور تاجروں اور سیاحوں کی کہانیاں اور تجربات سنے۔ شاہراہ ریشم کے پرانے تجارتی راستوں کے ساتھ ساتھ آج بھی کئی تاریخی عمارتیں اور یادگاریں ایستادہ ہیں، جو کاروان سراؤں، بندرگاہوں اور شہروں سے گزرنے والی شاہراہ ریشم کی گزرگاہ کی نشان دہی کرتی ہیں۔

لیکن پھر رفتہ رفتہ متبادل بحری راستے تلاش کر لیے گیے اور شاہراہِ ریشم کی اہمیت کم ہونے لگی۔ خصوصاً 14ویں صدی میں منگول سلطنت کے زوال کے بعد شاہراہِ ریشم کی سیاسی، معاشی، تجارتی اور ثقافتی اہمیت کافی حد تک کم ہوگئی۔ 18ویں صدی تک جو شاہراہ ریشم ایشیا اور یورپ کو ملانے والا اہم ترین زمینی تجارتی راستہ اور معاشی، ثقافتی، سیاسی اور مذہبی روابط کا مرکز سمجھی جاتی تھی وہ دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کی وجہ سے غیر فعال ہوتی چلی گئی۔

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔