پاکستان

آئی ایم ایف قرض منظوری کا پاکستانی خیر مقدم

آئی ایم ایف کی جانب سے 6.7 ارب ڈالر قرض منظوری کا خیر مقدم کرتے ہیں، گزشتہ قرضے اتارنے کے لیے استعمال کریں گے، وزارت خزانہ۔

اسلام آباد: پاکستان نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف) کی جانب سے 6.7 ارب ڈالر قرض کی منظوری کا خیر مقدم کیا ہے لیکن ماہرین معاشیات نے پاکستان کیلیے معاشی اصلاحات کو ناگزیر قرار دیا ہے۔

آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کیلیے تین سالہ قرضے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت پاکستان کو 540 ملین ڈالر کی پہلی قسط جلد ادا کر دی جائے گی۔

واشنگٹن کی گلوبل لینڈر کے مطابق پاکستان کو بقیہ رقم سہ ماہی جائزے کے بعد اس دورانیے میں ادا کی جائے گی۔

وزارت خزانہ کے ترجمان رانا اسد نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے قرضے کی منظوری کے بروقت فیصلے کو سراہتے ہیں اور دراصل یہ پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے قرض اپنی شرائط پر لیا ہے اور اسے گزشتہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

اس قرضے کا مقصد رقوم کی ادائیگی کے سنگین مسائل کو حل کرنا ہے اور اس کی ادائیگی کا دورانیہ ساڑھے چار سال سے دس سال تک ہے۔

آئی ایم ایف نے بدھ کو قرض دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے قرض کے اس پیکج والے پروگرام پر کاربند رہنے سے توقع ہے کہ یہ دیگر ڈونر اداروں سے مالی وسائل کے حصول میں مددگار ثابت ہو گا۔

آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ درپیش چیلنجز کے باوجود پاکستان میں افرادی قوت، قدرتی وسائل اور جغرافیائی محل وقوع کے باعث اقتصادی ترقی کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کیلئے قرضہ کے اس پیکج سے معیشت کی بہتری اور ادائیگیوں کے توازن کے بحران پر قابو پانے، زرمبادلہ کے ذخائر کو بہتر بنانے اور مالی خسارہ میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ سرمایہ کاری اور ترقی کیلئے جامع اصلاحات لانے میں بھی مدد ملے گی۔

اس قرضے کا مقصد پاکستان کے مالیاتی خسارے میں کمی کرنا ہے جو گزشتہ سال جی ڈی پی کا تقریباً 9 فیصد تھا جبکہ اس کے ساتھ توانائی کے بحران سے دوچار ملک میں بجلی کی کمی کو پورا کرنا ہے جس کے باعث ترقی کا عمل شدید متاثر ہوا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کو اس وقت طالبان کی جانب سے شدت پسندی سمیت معاشی میدان میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، روپے کی گرتی ہوئی قدر اور توانائی کی کمی جیسے سنگین بحرانوں کا سامنا ہے۔

آئی ایم ایف کے حالیہ اعداد وشمار کے مطابق سال 2012 میں پاکستان کی جی ڈی پی 3.7 فیصد تھی جس کے رواں سال 3.5 اور آئندہ سال 3.3 فیصد تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔

پاکستان کی جانب سے رواں سال مئی میں ہونے والے تاریخی انتخابات کے کچھ ہفتوں بعد ہی قرض کی درخواست دے دی گئی تھی جہاں ملک کی تاریخ میں پہلی بار اقتدار ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو منتقل ہوا اور نواز شریف تیسری دفعہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔

یہ قرضہ کئی ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد منظور کیا گیا ہے۔

پاکستان نے 2011 میں سخت معاشی اصلاحات کی شرائط کے باعث 11.3 ارب ڈالر کا قرضے کا پروگرام رد کر دیا تھا اور عالمی ادارے کو ابھی بھی اس قرضے میں سے 4 ارب ڈالر کی گزشتہ ادائیگی بھی کرنی ہے۔

ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کے پیکج سے دیگر بڑے عالمی مالیاتی اداروں کے پاکستان پر اس حوالہ سے اعتماد میں اضافہ ہوگا کہ پاکستان میں قومی معیشت میں بہتری لانے اور ترقیاتی پروگرام پر عملدرآمد کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔

تاہم پاکستان کی سیاسی صورتحال بھی ائی ایم ایف کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو گی۔

پیٹرسن انسٹیٹیوٹ فار انترنیشنل اکنامکس کے جیکب مارٹن نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایم ایف کے لیے یہ ایک بہت مشکل پروگرام ثابت ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان ایک جوہری صلاحیت کا حامل ملک نہ ہوتا تو آئی ایم ایف کے بورڈ میں موجود بڑے ممالک یقینی طور پر صورتحال کی بہتری کے لیے کسی خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ نہ کرتے۔