پاکستان

سپریم کورٹ سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ پر حکومت کی رائے طلب کرنے کی درخواست

سپریم کورٹ، وفاقی حکومت کو 10 روز کے اندر آئین کے آرٹیکل 186 کو نافذ کرنے کا حکم دے، ایڈووکیٹ ذوالفقار احمد بھٹہ کی استدعا

سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت عظمیٰ کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ (او ایس اے) اور پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) کی قانونی حیثیت کے بارے میں وفاقی حکومت سے رائے طلب کرنی چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا یہ بیان کہ انہوں نے نہ تو ان دونوں بلوں کی منظوری دی، نہ ہی دوبارہ غور کے لیے پارلیمنٹ میں واپس کرنے کی وجوہات سے متعلق نوٹ تحریر کیا۔

درخواست گزار ایڈووکیٹ ذوالفقار احمد بھٹہ نے مؤقف اپنایا کہ ایسے وقت میں دونوں قوانین کی حیثیت کا تعین کرنا ضروری ہے جب صدر مملکت نے کہا کہ انہوں نے بلوں کی منظوری دی نہ انہیں واپس ارسال کیا۔

اس کے علاوہ درخواست گزار کے وکیل نے ڈان کو بتایا اس بات کا بھی امکان ہے کہ دو ترمیم شدہ قوانین کے تحت مقدمے کا سامنا کرنے والا ملزم اس بنیاد پر اپنی بریت کا مطالبہ کر سکتا ہے کہ اس تنازع کی وجہ سے قانون اپنی قانونی حیثیت کھو چکا ہے۔

تین صفحات پر مشتمل پٹیشن میں ذوالفقار علی بھٹہ نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ، وفاقی حکومت کو 10 روز کے اندر آئین کے آرٹیکل 186 کو نافذ کرنے کا حکم دے۔

آرٹیکل 186 سپریم کورٹ کے مشاورتی دائرہ اختیار سے متعلق ہے جسے حکومت بلوں، خاص طور پر آئین کے آرٹیکلز 71 اور 75 کے پیش نظر قانونی حیثیت سے متعلق سوال پر اس کی رائے جاننے کے لیے عدالت عظمیٰ کو ریفرنس بھیج سکتی ہے۔

یہ درخواست آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر کی گئی ہے جس میں بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کا سہارا لیا گیا ہے، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ترمیمی بل انتہائی حساس ہیں جن سے ملزمان متاثر ہوں گے۔

درخواست میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اگر سپریم کورٹ نے بروقت اس معاملے کو حل نہ کیا تو مستقبل میں ان بلوں کے تحت لوگوں کے خلاف پراسیکیوشن بری طرح متاثر ہوگی اور تفتیشی اداروں کی تمام کوششیں بے سود ہو جائیں گی۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ ان خدشات کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ الزامات سے بری ہونے کے بعد بری ہونے والے افراد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور دیگر متعلقہ افسران کے خلاف پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 219 اور 220 کے مقدمات درج کر اسکتے ہیں۔

سیکشن 219 کہتا ہے کہ جو سرکاری ملازم بدعنوانی یا بدنیتی سے عدالتی کارروائی کے کسی مرحلے پر کوئی رپورٹ، حکم یا کوئی ایسا فیصلہ دیتا ہے جسے وہ قانون کے خلاف جانتا ہے، اسے سات سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

اسی طرح سیکشن 220 کہتا ہے کہ کسی ایسے شخص کی جانب سے جو یہ جانتا ہو کہ وہ قانون کے خلاف کام کر رہا ہے، اسے بھی مقدمے یا قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بلوں پر دستخط سے متعلق تنازع سامنے آنے کے فوری بعد صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے سیکریٹری وقار احمد کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن واپس بھیج دیا تھا۔

میٹا نے تھریڈز کا ویب ورژن متعارف کرنے کا اعلان کردیا

پہلا ون ڈے: پاکستان کی شاندار باؤلنگ، افغانستان کی ٹیم 202 رنز کے تعاقب میں 59 رنز پر ڈھیر

صارفین سے جولائی میں استعمال شدہ بجلی پر 2.07 روپے فی یونٹ اضافی وصول کرنے کی درخواست