نقطہ نظر

جامعات میں اسکالرشپ پر پڑھنے والے طلبہ خود کو کمتر محسوس کیوں کرتے ہیں؟

جامعات میں اسکالرشپس کے ذریعے تنوع پیدا کرنا جتنا خوش آئند عمل ہے اتنا ہی دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو اشرافیہ کے اس سیٹ اپ میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
|

جب فرسٹ ایئر کے ایک ہونہار طالب علم سعد* نے اپنی نئی یونیورسٹی میں اوریئنٹیشن ویک گزارا تو وہ آنے والے 4 سال کے لیے کافی پُرامید اور پُرجوش تھا۔

سعد نے لاہور کی اعلیٰ یونیورسٹی لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز (لمز) میں داخلے کے لیے اسکالر شپ حاصل کی تھی۔ پنجاب کے دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والے اس طالب علم نے تمام مشکلات کو شکست دی جب تک اس کا سامنا اپنے ہم جماعتوں سے نہیں ہوا۔

کلاسوں کا آغاز ہوا تو تمام طلبہ سے اپنا تعارف کروانے کو کہا گیا۔ اپنے ہم جماعتوں کو انگریزی زبان میں بات کرتا دیکھ کر سعد حیران رہ گیا، کیونکہ ان میں سے کچھ کا لہجہ بھی مغربی تھا۔ یہ سب دیکھتے ہوئے وہ اپنی پنجابی لہجے والی خراب انگریزی کی وجہ سے خود کو کمتر محسوس کرنے لگا۔ اسے خوف تھا کہ ساتھی طلبہ اس کے بارے میں کوئی خراب رائے قائم کرلیں گے۔

سعد نے خاموشی سے اپنا تعارف کروائے بغیر یہ گروپ چھوڑ دیا اور اوریئنٹیشن گروپ کی فون کالز بھی نظرانداز کردیں۔ اس کے بعد اس نے اوریئنٹیشن کی کسی بھی تقریب میں شرکت نہیں کی۔

سماجی فرق

یہ صرف ایک سعد کی کہانی نہیں۔ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے تمام طلبہ جن کا داخلہ لمز، حبیب یونیورسٹی اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن ( آئی بی اے) جیسے معتبر اداروں میں ہوتا ہے، وہ اس ماحول میں نہ ڈھلنے سے شرمندگی کا سامنا کرتے ہیں۔

سعد جیسے طلبہ کے لیے ان بڑی جامعات کا ماحول اُس ماحول سے قدرے مختلف ہوتا ہے جس میں وہ پرورش پاتے ہیں۔

سعد نے بتایا کہ ’میں ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتا ہوں اور میں نے لڑکوں کے اسکول میں تعلیم حاصل کی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ ایسے تعلیمی اداروں کا کیا ماحول ہوتا ہے جوکہ کیمبرج سسٹم کے تحت چلتے ہیں‘۔

ہر سال پاکستان کی معتبر جامعات ایسے طلبہ کو اسکالر شپس کے نام پر مالی معاونت فراہم کرتی ہیں جن کا تعلیمی ریکارڈ اچھا ہو اور جن کا سماجی اقتصادی پس منظر بھی حیثیت کے اعتبار سے کم ہوتا ہے۔

یہ وظائف ضرورت پر مبنی مالی امداد کی شکل میں یا میرٹ-کم-نیڈ صورت میں نیشنل آؤٹ ریچ پروگرام (این او پی) اور نیشنل ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام (این ٹی ایچ پی) کے ذریعے دیے جاسکتے ہیں۔ سعد اپنی یونیورسٹی کے ان چند طالب علموں میں سے ایک ہے جنہیں لمز میں مکمل فنڈڈ این او پی اسکالرشپ کی بنیاد پر داخلہ دیا گیا تھا۔

اگرچہ جامعات میں تنوع پیدا کرنا ایک خوش آئند عمل لگتا ہے لیکن دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو اشرافیہ کے اس سیٹ اپ میں خاصی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان سے توقعات کی جاتی ہیں کہ وہ مختلف لباس پہنیں، خاص انداز میں کام کریں، ایسی زبان میں بات کریں جو ان کے لیے اجنبی ہے اور اپنے گھر سے بہت دور ایسا طرزِ زندگی اختیار کریں جس سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔

مذکورہ توقعات پر پورا نہ اترنے پر اکثر ان تعلیمی اداروں میں ان طلبہ کو الگ تھلگ کردیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ طالب علم دور دراز علاقوں سے ہوتے ہیں، اس لیے ان کی سوچ میں فرق اور متضاد عقائد کی وجہ سے وہ اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

دو مختلف دنیائیں

نتیجتاً ایسی یونیورسٹیوں میں دو مختلف گروہ وجود میں آتے ہیں، ایک گروہ وہ جو مالی معاونت حاصل کرتا ہے اور ایک وہ جنہیں اس کی ضوررت نہیں۔ یوں ان دونوں گروہوں میں طبقاتی تقسیم ظاہر ہوتی ہے۔

آئی بی اے میں زیرِتعلیم سندھ کے علاقے تھرپارکر سے تعلق رکھنے والے ویشال* یہاں داخلے سے قبل اپنے والد کے ساتھ پرچون کی دکان چلاتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح وہ معروف اسکولوں سے آنے والے طلبہ کے درمیان اکثر خود کو کمتر محسوس کرتے تھے اور کس طرح اچھے گھرانوں کے طلبہ انہیں خود سے دور رکھتے تھے۔

ویشال افسوس کے ساتھ بتاتے ہیں کہ ’وہ آپ سے بات کریں گے لیکن آپ کے دوست کبھی نہیں بنیں گے۔ میں نے پورا سال طلبہ کے درمیان خود کو کمتر محسوس کرتے ہوئے گزارا ہے‘۔

کبھی کبھار ویشال خود سے سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ آئی بی اے میں تعلیم حاصل کرنے کے لائق ہیں کیونکہ ان کے ہم جماعت اپنی مالی حیثیت، سماجی تعلقات اور گزشتہ تعلیمی اداروں کے اعتبار سے ویشال سے کہیں زیادہ مراعات یافتہ ہیں۔

ویشال جیسے طلبہ اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان کے ہم جماعتوں کے درمیان واضح فرق مالی حیثیت کا ہوتا ہے جبکہ سماجی عقائد، تعلقات اور زبان کا فرق بھی انہیں دیگر طلبہ سے مختلف بناتا ہے۔

ان معتبر اداروں میں کیمبرج سسٹم سے پڑھ کر آنے والے طلبہ کے مقابلے میں مقامی بورڈز سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد کم ہوتی ہے۔ طلبہ کی اکثریت نے او اور اے لیول پڑھا ہوتا ہے جبکہ وہ ایک ہی اسکول اور کالج سے گروہوں کی شکل میں یونیورسٹی آتے ہیں جس کی وجہ سے جامعات میں گروہ بندی ہوتی ہے۔

ایسے میں اسکالر شپ حاصل کرنے والے طلبہ کا اپنا ایک الگ گروہ بن جاتا ہے جہاں وہ ایک دوسرے کے حوالے سے کوئی رائے قائم نہیں کرتے۔ عموماً ایسا علاقائی اور لسانی بنیادوں پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آئی بی اے میں سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے سے سندھی زبان میں گفتگو کرتے ہیں جوکہ سماجی مساوات کو ظاہر کرتا ہے۔

جیسا کہ ویشال نے بتایا کہ طبقاتی تقسیم اعلیٰ طبقے کے کچھ طلبہ کو نچلے طبقے کے طلبہ کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ نہ کرنے پر مجبور کرتی ہے کیونکہ ان دونوں کی سوچ اور خیالات میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔

لہٰذا جامعات میں تنوع کو فروغ دینے کی کوششوں کے باوجود پاکستان کے تعلیمی نظام میں دہائیوں پرانی خلیج، پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو اپنے خول سے باہر آنے نہیں دیتی۔

زبان کی بنیاد پر تقسیم

علاوہ ازیں، طبقاتی تقسیم کے بعد زبان مختلف ہونے کی وجہ سے طلبہ کی ایک دوسرے سے روابط اور تعلقات قائم کرنے کی صلاحیتیں بھی کم ہوجاتی ہیں۔

کیمبرج سسٹم میں ابتدائی تعلیم کی بنیاد پر سماجی اسٹیٹس قائم ہوتا ہے۔ طالبِ علم جتنا زیادہ مغربی اور اس کی انگریزی جتنی زیادہ اچھی ہوگی، اس کا سماجی اسٹیٹس بھی اس لحاظ سے اونچا ہوگا۔ اس کے مقابلے میں اگر دیکھا جائے تو سرکاری اسکولوں میں تمام مضامین اردو میں پڑھائے جاتے ہیں اور وہاں انگریزی زبان سکھانے کے بجائے اسے بطور مضمون پڑھایا جاتا ہے۔

اسکالر شپ پر آئی بی اے میں داخلہ لینے والی فرسٹ ایئر سوشل سائنسز کی طالبہ صبا* اس ادارے میں اپنے ابتدائی دونوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’جب اساتذہ نے لیکچرز دینا شروع کیے تو وہ ’مکمل طور پر انگریزی‘ میں ہوتے تھے اور وہ اتنا تیز بولتے تھے کہ وہ سمجھ نہیں پاتی تھیں کہ وہ کیا بول رہے ہیں جس کی وجہ سے چیزیں سمجھ نہیں پاتی تھیں۔

مقامی بورڈز اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو ایک ایسی زبان سمجھنے میں وقت لگتا ہے جس سے وہ واقف نہیں ہوتے۔ یوں وہ تعلیم اور سماجی میدان میں کیمبرج سسٹم سے آئے طلبہ کے مقابلے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔

طلبہ کیا کرتے ہیں؟

تعلیمی ادارے میں موجود دیگر طلبہ کے ساتھ فٹ ہونے کے لیے اسکالر شپ والے طلبہ اکثر ایسے رویے اختیار کرلیتے ہیں جوکہ ان کی شخصیت کے منافی ہوتے ہیں۔

حبیب یونیورسٹی میں اسکالر شپ پر پڑھنے والی طالبہ عائشہ* کہتی ہیں کہ یونیورسٹی میں ابتدائی دو سالوں کے دوران صرف دوست بنانے کے لیے انہوں نے غیرفطری طور پر خوش مزاج ’پسندیدہ شخص‘ بننے کی کوشش کی۔

اسی طرح سعد نے بتایا کہ یونیورسٹی میں ایک سال گزارنے کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ اپنی شخصیت میں بدلاؤ لانا اور اپنا طرزِ لباس بدلنا ان کے لیے کتنا ضروری ہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ جب کیمپس میں لڑکیوں کو پتا چلتا ہے کہ آپ اسکالر شپ پر تعلیم حاصل کرنے والے طالبِ علم ہیں تو وہ آپ کو نظرانداز کرنے لگتی ہیں تو آپ کو اس ماحول میں فٹ ہونے کے لیے ایسی شخصیت اپنانی پڑتی ہے جوکہ درحقیقت آپ نہیں ہوتے۔

انہیں وجوہات کی بنا پر کچھ طلبہ ذہنی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اپنے اور اپنے ہم جماعتوں کے درمیان مشترک سماجی و علمی نقطے کی تلاش میں وہ ذہنی مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

بدقسمتی سے عام طور پر یہ کوشش زیادہ تر لوگوں کے لیے الٹ ثابت ہوتی ہے اور انہیں اپنے جیسے طلبہ کے گروہ میں واپس آنے پر مجبور کردیتی ہے جس سے وہ جامعات میں متنوع پس منظر والے طلبہ کے ساتھ جڑنے کا موقع گنوا دیتے ہیں۔

اس کا حل کیا ہے؟

یہاں یہ بتانا ضروری ہے طلبہ کو پاکستان کے بہترین اداروں کا حصہ بنانے والے وظائف، مالی معاونت اور دیگر ایوارڈز مسئلہ نہیں ہیں۔

انہوں نے بہت سے مستحق طلبہ کو بیرون ملک معروف پوسٹ گریجویٹ پروگراموں میں جانے میں مدد کی ہے اور ایسی ملازمتیں تلاش کرنے اور بہتر زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا ہے جو ان اسکالرشپس کے بغیر ان کے لیے حاصل کرنا تقریباً ناممکن تھا۔

لیکن جامعات کو عملے، فیکلٹی اور طلبہ کی تربیت پر غور کرنا چاہیے۔ اس تربیت میں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ بات چیت کرنے کے بارے میں آگاہی بڑھانے پر توجہ مرکوز کی جاسکتی ہے۔

اسکالرشپ پروگراموں میں داخلہ لینے والے طلبہ کی معاونت، زبان کی کوچنگ اور غیر نصابی مالی مدد کی صورت میں اضافی مدد بھی فراہم کی جانی چاہیے۔

لمز میں سوشیالوجی کی پروفیسر ڈاکٹر ندا کرمانی کہتی ہیں کہ ’جامعات کو اپنے ایسے رویے کو بدلنا چاہیے جس کے تحت وہ طلبہ کے ساتھ ’خیراتی کیسز‘ والا برتاؤ کرتے ہیں بلکہ انہیں متنوع پس منظر کے طلبہ کو اپنی یونیورسٹی کے اثاثوں کے طور پر اہمیت دینی چاہیے۔ اس حوالے سے پہلا قدم یہ ہوگا کہ ان پروگراموں کے طلبہ سے ان کے تجربات کے بارے میں بات کی جائے اور ان کے خیالات اور تجاویز کو مدنظر رکھا جائے‘۔

یونیورسٹی کا عرصہ طلبہ کے لیے ایک ایسا دور ہوتا ہے جس میں وہ خود میں تبدیلی لاتے ہیں۔ یہ نہ صرف غیر مراعات یافتہ طلبہ کا حق ہے بلکہ ادارے کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اسے ان کے لیے ایک فائدہ مند تجربہ بنائیں۔ ان باصلاحیت طلبہ کی شخصیت کو بہتر بنانے کے لیے، انہیں منصفانہ اور مساوی مواقع فراہم کیے جانے چاہیے۔


*رازداری کی غرض سے نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔


یہ مضمون 13 اگست 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

فاطمہ خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
مطیع الرحمٰن
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔