پلاننگ کمیشن کا حکومت کو ایل پی جی کے بجائے ایل این جی استعمال کرانے کا مشورہ
پلاننگ کمیشن نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ مہنگی لیکویفائیڈ پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) کو نسبتاً سستی مائع قدرتی گیس (ایل این جی) سے تبدیل، مقامی قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور سرحد پار گیس پائپ لائنوں کے منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے فوری اقدامات کرے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک تفصیلی پالیسی مشورے میں پلاننگ کمیشن کے انرجی پلاننگ اینڈ ریسورس سینٹر (ای پی آر سی) نے تیسرا تیرتا ہوا ایل این جی ٹرمینل قائم کرنے، صنعتی شعبے کے کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی سپلائی منقطع کرنے اور زیادہ کھپت والے مہینوں کے لیے درآمد شدہ گیس کو ذخیرہ کرنے کے لیے پرانی گیس فیلڈز استعمال کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ موجودہ گیس کی قیمتوں کا تعین مقامی سیکٹر کے لیے ایل این جی کی مجموعی قیمت کی عکاسی نہیں کرتا، ای پی آر سی نے حکومت کو مشورہ دیا کہ ’گیس کی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار میں ایل این جی کی ترسیل کی لاگت کو درست معنوں میں ظاہر کرنے کے لیے پالیسی فیصلے کریں‘ کیونکہ گیس کی موجودہ قیمتیں لاگت کی عکاس نہیں ہیں۔
کمیشن نے یہ بھی کہا کہ جن علاقوں میں گیس کی ترسیل کا نظام موجود نہیں وہاں پائپ لائنوں کے ذریعے ایل این جی کی فراہمی مہنگی اور خطرناک ایل پی جی کے مقابلے میں زیادہ سستی اور قابل رسائی ہوگی۔
اس کے علاوہ گیس کی طلب اور سبسڈی کو کم کرنے کے لیے لاگت پر مبنی ایل این جی کی قیمتوں کو صارفین تک پہنچا کر لاگت کی عکاسی کرنے والی قیمتوں کا نظام نافذ کیا جا سکتا ہے۔
قدرتی گیس، ایل این جی اور ایل پی جی کے درمیان قیمتوں کا موازنہ کرتے ہوئے پلاننگ کمیشن کے ریسورس سینٹر نے نشاندہی کہ مقامی گیس کی مجموعی قیمت 5.02 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) جبکہ ایل این جی کی 16.84 ڈالر اور ایل پی جی کی 22.06 ڈالر ہے۔
موازنہ اس کی متبادل توانائی کے مقابلے میں ایل پی جی کی زائد قیمت کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے جب کہ قدرتی گیس سب سے سستا ذریعہ ہے اور ایل این جی انتہائی مہنگی ایل پی جی کے مقابلے میں اعتدال پسند نرخ کی حامل ہے۔
کمیشن نے کہا کہ عام مارکیٹ کے حالات میں ایل این جی مقامی سیکٹر میں ایل پی جی کی جگہ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے، ایل پی جی اور ایل این جی کی تقابلی قیمت کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ اگر درآمد میں اضافہ ہوا تو ایل پی جی کی قیمت ایل این جی سے زیادہ ہے جو مالی مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔
لہٰذا ان علاقوں اور سیکٹرز میں جہاں ترسیل کا نظام موجود نہیں وہاں پائپ لائنوں کے ذریعے ایل این جی کی فراہمی مہنگی ایل پی جی کے مقابلے میں زیادہ سستی اور قابل رسائی ہوگی۔
پالیسی مشورے میں کئی عوامل کی وجہ سے بین الاقوامی ایل این جی کی قیمتوں میں بڑے تغیرات کو بھی اجاگر کیا گیا اور بتایا گیا کہ ایندھن کی اسپاٹ قیمتیں گزشتہ سال 30.60 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تک بلند تھیں۔
پلاننگ کمیشن نے یہ بھی تجویز کیا کہ ’سوئی گیس کی تقسیم کار کمپنیوں کی تخمینہ شدہ آمدنی کی ضروریات کے مطابق صارفین کے لیے اس کی قیمتوں پر نظر ثانی کی جانی چاہیے‘۔
مزید کہا کہ گیس کی قیمتوں پر نظرثانی میں تاخیر کے نتیجے میں ریونیو شارٹ فال یا ٹیرف کے فرق میں اضافہ ہوا ہے، چنانچہ گیس کے شعبے کے ٹیرف کے فرق جمع ہونے سے بچنے اور پائیداری کے لیے قیمتوں پر اس کی مقررہ ٹائم لائن کے مطابق نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
کمیشن نے کہا کہ ملک میں گیس کی قیمتوں کا تعین کرنے والا موجودہ نظام مالی طور پر پائیدار نہیں ہے کیونکہ اس کی وجہ سے سالانہ لاگت کی وصولی میں خسارہ ہوا، گیس کے گردشی قرضے جمع ہوئے اور پبلک سیکٹر کی ایل این جی درآمد کرنے والی کمپنیوں پر بوجھ پڑا۔
لہٰذا قدرتی گیس کی قیمتوں پر ایل این جی مارکیٹ کی صورتحال کے مطابق نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
مشورے میں کہا گیا کہ ایل این جی کی موجودہ اور متوقع زیادہ طلب کی بنیاد پر، ملک کی دستیاب ٹرمینل صلاحیت 2025 تک ایل این جی کی درآمد کو سہولت فراہم کر سکتی ہے۔
اس کے علاوہ اسپاٹ مارکیٹس سے مہنگی ایل این جی کی درآمد پر انحصار کم کرنے کے لیے پاکستان کو پڑوسی ممالک کے ذریعے قدرتی گیس کی پائپ لائن درآمد کرنے پر غور کرنا چاہیے۔
پلاننگ کمیشن نے کہا کہ مجوزہ تاپی پائپ لائن ایک ہزار 350 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کرتی ہے، جبکہ ایران پاکستان پائپ لائن 750 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کرسکتی ہے۔