فنڈنگ میں کمی کے باوجود اقوام متحدہ کا تنازعات سے متاثرہ کروڑوں افراد کی امداد کا فیصلہ
انسانی امداد میں کمی کے باوجود اقوام متحدہ اور اس کے شراکت داروں نے تنازعات اور دیگر بحرانوں سے متاثرہ دنیا بھر کے 25 کروڑ افراد کی مدد کرنے کا ہدف رکھا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے اس عزم کا اظہار ’عالمی یوم انسانی ہمدردی‘ کے موقع پر کیا گیا، یہ دن ہر سال 19 اگست کو 2003 میں اس دن کی یاد میں منایا جاتا ہے جب بغداد میں کینال ہوٹل میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز کے باہر ایک خودکش بمبار نے دھماکا خیز مواد سے بھرے ٹرک کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔
اس حملے میں ہلاک ہونے والے عملے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر بھی شامل تھے جو عراق میں اقوام متحدہ کے مشن کے سربراہ بھی تھے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے انسانی ہمدردی کے عالمی دن کے موقع پر کہا کہ بحران بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی کے تحت امداد دینے والے لاکھوں ضرورت مندوں کی امداد کم کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں جو کہ ناقابل قبول ہے۔
انہوں نے بڑھتی جغرافیائی سیاسی کشیدگی، عالمی انسانی حقوق اور اس سے متعلق قانون کی صریح خلاف ورزی، جان بوجھ کر حملے اور غلط معلومات کی مہمات کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ انسان دوست افراد کو درپیش خطرات بھی کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔
گزشتہ سال 235 حملوں میں 444 امدادی کارکن تشدد کا شکار ہوئے، ان رضاکاروں میں سے 116 ہلاک، 143 زخمی اور 185 اغوا ہوئے، ان افراد میں سے زیادہ تر غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ کام کرنے والے قومی شہری تھے۔
انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) نے اس موقع پر اپنے قیام کے 90 سال مکمل کیے جب کہ عالمی سطح پر اپنے 90 سالہ اور پاکستان کے ساتھ اپنے 40 سالہ سفر کے دوران کمیٹی نے پیچیدہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تخلیقی طریقہ کار استعمال کیے۔
آئی آر سی کا کہنا ہے کہ ضروری طبی خدمات، صاف پانی، تعلیم سے لے کر بے گھر ہونے والے لوگوں کو تحفظ کی فراہمی تک اس کے امدادی اقدامات کا دائرہ کار 40 سے زیادہ ممالک تک پھیلا ہوا ہے جب کہ ان ممالک میں دنیا کے کچھ ایسے خطے بھی شامل ہیں جو ناقابل رسائی ہیں جہاں سیکیورٹی کے سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
پاکستان میں مون سون بارشوں کے باعث سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے متعلق ابتدائی ضروریات کی نشاندہی کی رپورٹ میں آئی آر سی کا کہنا ہے کہ اس نے پاکستان کے 8 اضلاع اپر چترال، لوئر چترال، دادو، قمبر شہداد کوٹ، راجن پور، نصیر آباد، جعفرآباد اور خاران میں متاثرہ آبادی کی ضروریات کی نشاندہی کرنے کے لیے کئی شعبہ جاتی جانچ کا طریقہ اپنایا گیا۔
آئی آر سی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ مون سون بارشوں کی وجہ سے خاص طور پر بلوچستان اور سندھ میں لائیو اسٹاک کے شعبے پر بھی منفی اثر پڑا جہاں ہزاروں مویشیوں کو بچایا نہیں جاسکا۔
رپورٹ کے مطابق جہاں تک انفرااسٹرکچر کا تعلق ہے تو ان اضلاع میں 2 ہزار 652 مکانات مکمل طور پر تباہ جب کہ 3 ہزار 284 مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا جب کہ انفرااسٹرکچر کو بھی سندھ اور بلوچستان میں سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔