جسٹس منصور شاہ کی 184 (3) کے تحت سماعتوں کو عارضی طور پر روکنے کی تجویز
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے تجویز دی ہے کہ جب تک بینچز کی تشکیل کے عمل کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نئے بل کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا، چیف جسٹس آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت مقدمات کی کارروائی روک دیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق آئین کا آرٹیکل 184 (3) سپریم کورٹ کو اصل دائرہ اختیار فراہم کرتا ہے اور اسے کسی ایسے اقدام یا پیشرفت کا از خود نوٹس لینے کا اختیار دیتا ہے جو اس کی رائے میں، عوامی اہمیت کا معاملہ ہو اور آئین کی طرف سے ضمانت کے طور پر لوگوں کے بنیادی حقوق شامل ہوں۔
خیال رہے کہ گزشتہ اتحادی حکومت نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 نافذ کیا تھا جس کا مقصد چیف جسٹس کے بینچز کی تشکیل اور ان کے سامنے کسی بھی کیس کو نمٹانے کے اختیارات کو ختم کرنا تھا۔
بل کو اس سال کے آغاز میں پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ تاہم چیف جسٹس سمیت آٹھ ججز پر مشتمل بینچ نے بل کو چیلنج کرنے والی تین درخواستوں کے بعد اس پر عمل درآمد روک دیا تھا۔
حکومت کی طرف سے کی جانے والی قانون سازی کے مطابق چیف جسٹس اور دو سینئر ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا کہ سو موٹو (ازخود) نوٹس لیا ہے یا نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس سابق وزیراعظم عمران خان کی طرف سے قانون سازی کو چیلنج کرنے کے لیے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کے دوران جاری کیے گئے دو صفحات پر مشتمل نوٹ میں آئے ہیں۔
اگر جسٹس منصور علی شاہ کی تجویز منظور کرلی جاتی ہے تو نیب قوانین میں ترامیم سمیت متعدد مقدمات پر فل کورٹ کی طرف سے سماعت کی جائے گی۔
جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ
جسٹس منصور علی شاہ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے معاملے میں بھی اپنی رائے کا حوالہ دیا جہاں انہوں نے یہی مشورہ دیا تھا۔
اپنے نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت نے قانون کے خلاف درخواستوں کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام مقدمات پر فل کورٹ بینچ سن سکتا ہے۔
معزز جج نے قبل ازیں چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی درخواست کی تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے امید ظاہر کی کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال درخواست پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔
معزز جج نے کہا کہ وہ مناسب سمجھتے ہیں کہ انہیں عدالت کی معاونت کا موقع اس سوال پر دیا جائے کہ جب تک کہ عدالت پہلے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کی آئینی حیثیت کا فیصلہ نہیں کرتی، کیا موجودہ تین رکنی بینچ کو اس کیس کی سماعت جاری رکھنی چاہیے یا اس کیس کو ملتوی کر دینا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ میں لکھا کہ یا پھر کیا فل کورٹ کو اس کیس کو ایکٹ کی آئینی حیثیت پر زیر التوا فیصلہ سنانا چاہیے۔
انہوں نے نوٹ میں لکھا کہ اگرچہ عدالت جولائی 2022 سے اس کیس کی سماعت کر رہی ہے لیکن اس سال کے شروع میں پارلیمنٹ نے نیا قانون نافذ کیا جس کے لیے تین ججز کی کمیٹی کے ذریعے بینچ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
قانون کے سیکشن 4 میں کہا گیا ہے کہ آئینی شق کی تشریح سے متعلق کسی بھی کیس کی سماعت کم از کم پانچ ججز پر مشتمل بینچ کے ذریعے کی جائے گی۔
نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ ایک طریقہ کار کا قانون ہونے کا اطلاق آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت زیر التوا مقدمات پر بھی ہوتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ آٹھ ججز کے بینچ نے اس پر عمل درآمد روک دیا ہے۔
انہوں نے نوٹ میں لکھا کہ یہ واضح ہے کہ آٹھ ججز کے بینچ کی معطلی کا حکم ایک عبوری اقدام ہے، اگر عدالت نے فیصلہ کیا کہ بل آئین کے مطابق ہے تو اس کا نفاذ اس کے عملدرآمد کی تاریخ سے ہوگا عدالت کے فیصلے کی تاریخ سے نہیں۔