پاکستان

بغاوت، دہشت گردی کا مقدمہ: ایمان مزاری اور علی وزیر کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

بغیر اجازت جلسہ، کار سرکار میں مداخلت کے مقدمے میں ایمان مزاری کا 14 روزہ جوڈیشل، علی وزیر کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا گیا۔
| |

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے دہشت گردی کی دفعات کے تحت تھانہ سی ٹی ڈی میں درج مقدمے میں سابق وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری اور سابق رکن اسمبلی علی وزیر کو ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر محکمہ انسداد دہشت گردی کے حوالے کردیا۔

اسلام آباد پولیس نے بغیر اجازت جلسہ کرنے، کارسرکار میں مداخلت اور بغاوت و دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات میں گرفتار ایمان مزاری اور علی وزیر کو ڈیوٹی جج احتشام عالم کی عدالت میں پیش کیا۔

پولیس نے علی وزیر اور ایمان مزاری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، وکیل زینب مزاری نے کہا کہ یہ تمام قابل ضمانت دفعات ہیں، کون سے معاشرے میں یہ چیزیں ہوتی ہیں۔

پولیس نے کہا کہ سرچ وارنٹ تھے، بیل دی اور پھر ان کو گرفتار کیا گیا، ایمان مزاری کے وکلا عدالت کے سامنے بات کرتے ہوئے جذباتی ہو گئے، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ میری مؤکلہ وکیل ہیں، یہ کوئی طریقہ کار ہے جس طرح انہوں نے گرفتار کیا۔

ایمان مزاری کی وکیل زینب جنجوعہ نے کہا کہ کیا کسی کی کوئی عزت نہیں ہے، پراسیکیوٹر عدنان علی نے کہا کہ ایمان مزاری و دیگر کی جانب سے اداروں کے خلاف تقاریر کی گئیں، اس موقع پر پراسیکیوٹر عدنان علی کی جانب سے ایف آئی آر پڑھی گئی۔

عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ خاتون کا ریمانڈ کیسے ہوگا؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں قانون پڑھ کے عدالت کی معاونت کرتا ہوں، قانون میں طریقہ کار موجود ہے، اس کیس میں خاتون کا جسمانی ریمانڈ ہو سکتا ہے۔

وکیل زینب جنجوعہ نے کہا کہ انہوں نے ڈکیتی کی صرف ایک دفعہ ایف آئی آر میں شامل کی ہوئی ہے، رات ساڑھے 3 بجے سے انہوں نے گرفتاری کی ہوئی ہے، ابھی تک ایک سوال بھی نہیں کیا۔

دوران سماعت شیریں مزاری روسٹرم پر آگئیں، انہوں نے کہا کہ میں مقدمے میں نامزد نہیں ہوں، میرا موبائل بھی چھینا گیا، میرے گھر کے سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیے گئے، میں اس کے بعد خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہوں۔

جج نے شیریں مزاری سے مکالمہ کیا کہ آپ متعلقہ فورم پر رجوع کریں، عدالت نے شیریں مزاری اور ان کے گارڈ کا موبائل واپس کرنے کی ہدایت کر دی، عدالت نے کہا کہ تفتیشی افسر صاحب اگر آپ کو ضرورت نہیں ہے تو ان کے موبائل واپس کریں۔

علی وزیر کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد میں فسطائیت کی اتنی فضا بنا دی گئی، وکیل علی وزیر پر درج ایف آئی آر ختم ہونی چاہیے۔

دوران سماعت عدالت میں ایمان مزاری اور علی وزیر کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کی دوسری ایف آئی آر بھی پیش کردی گئی۔

عدالت نے ایمان مزاری کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ دوسری ایف آئی آر سے متعلق کیا کہیں گے، ایمان مزاری کے وکیل کے دلائل نے دیے کہ ایک الزام میں 2 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ انہوں نے اسٹیج پر کھڑے ہوکر اداروں کے خلاف بیانات دیے ہیں، فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے ایمان مزاری اور علی وزیر کے خلاف دو درج ایف آئی آرز میں فیصلہ محفوظ کرلیا۔

بعد میں عدالت نے اپنا فیصلہ جاری کیا جس کے مطابق دہشت گردی کے مقدمے میں ایمان مزاری اور علی وزیر کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا گیا جب کہ بغیر اجازت جلسہ کرنے اور کار سرکار مداخلت کے مقدمے میں علی وزیر کا 2 روزہ جسمانی اور ایمان مزاری کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور کیا گیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ کے ڈیوٹی جج احتشام عالم نے بغیر اجازت جلسہ کرنے اور کار سرکار میں مداخلت پر تھانہ ترنول میں درج مقدمے کا تحریری حکم نامہ جاری کیا جس کے مطابق تفتیشی افسر کی جانب سے علی وزیر اور ایمان مزاری کے پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت، خاتون کا جسمانی ریمانڈ منظور نہیں کر سکتی،قانون کے مطابق خاتون کا جسمانی ریمانڈ صرف قتل، ڈکیتی کے مقدمات میں منظور کیا جاسکتا ہے۔

اس میں کہا گیا کہ ایمان مزاری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کی جاتی ہے، ایمان مزاری کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور کیا جاتا ہے، ایمان مزاری کو 2 ستمبر کو دوبارہ عدالت پیش کیا جائے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ علی وزیر کو مقدمے میں ایک خصوصی کردار کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، تفتیش اور برآمدگی کے لیے علی وزیر کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا جاتا ہے، علی وزیر کو 22 اگست کو متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ نے دونوں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت تھانہ سی ٹی ڈی میں مقدمے میں جسمانی ریمانڈ منظوری کا تحریری حکم نامہ بھی جاری کردیا۔

فیصلے کے مطابق تفتیشی افسر کی جانب سے ملزمان علی وزیر، ایمان مزاری کے 10، 10 دن جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی، ملزمان علی وزیر اور ایمان مزاری کا ایک، ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا جاتا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ تفتیشی افسر ملزمان کو انسدادِ دہشت گردی عدالت کے سامنے پیش کریں، تفتیشی افسر ملزمان کے مزید جسمانی ریمانڈ سے متعلق استدعا انسدادِ دہشت گردی عدالت کے سامنے رکھیں۔

ایمان مزاری، علی وزیر کو گرفتار کرلیا ہے، اسلام آباد پولیس

قبل ازیں اسلام آباد پولیس نے سابق وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری اور سابق رکن اسمبلی علی وزیر کو ’تفتیش کے لیے‘ گرفتار کرلیا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ (ٹوئٹر) پر اسلام آباد پولیس کی جانب سے کی گئی ایک پوسٹ میں بتایا گیا کہ اسلام آباد پولیس نے علی وزیر اور ایمان مزاری کوگرفتار کرلیا ہے، دونوں ملزمان اسلام آباد پولیس کو تفتیش کے لیے مطلوب تھے، تمام کارروائی قانون کے مطابق عمل میں لائی جائے گی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اسلام آباد پولیس کے شعبہ تعلقات عامہ کی جاری کردہ خبر کو ہی درست تسلیم کیا جائے، اس حوالے سے کوئی پولیس اسٹیشن سے بیان دینے کا مجاز نہیں ہے۔

بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ پولیس کی جانب سے ایمان مزاری اور علی وزیر سے کس کیس میں تفتیش کی جارہی ہے۔

یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب رات گئے ایمان مزاری نے ’ایکس‘ پر پوسٹ کیا کہ نامعلوم افراد میرے گھر کے کیمروں کو توڑ کر گیٹ سے اندر کود گئے ہیں۔

ایک گھنٹے بعد اُن کی والدہ اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سابق رہنما شیریں مزاری نے پوسٹ کیا کہ خواتین پولیس اورسادہ لباس میں ملبوس افراد میری بیٹی ایمان مزاری کو لے گئے ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ خواتین پولیس اور سادہ لباس میں ملبوس اہلکار ہمارے سیکیورٹی کیمرے، لیپ ٹاپ اور فون بھی لے گئے، ہم نے اُن سے پوچھا کہ وہ کس کے لیے آئے ہیں اور وہ ایمان مزاری کو گھسیٹ کر باہر لے گئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اہلکار پورے گھر میں ادھر ادھر پھرتے رہے، میری بیٹی اپنے رات کے کپڑوں میں تھی، اس نے اہلکاروں سے کہا کہ مجھے کپڑے بدلنے دو لیکن وہ اسے گھسیٹ کر لے گئے۔

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ کوئی وارنٹ نہیں دکھایا گیا اور نہ ہی کوئی قانونی طریقہ کار اپنایا گیا، ہم گھر میں صرف 2 خواتین رہتی ہیں، یہ سراسر ریاستی فاشزم اور اغوا ہے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ وہ لوگ گیٹ سے چھلانگ مار کر اندر آگئے، گارڈ کو مارا پیٹا اور اسے کیبن میں بند کر دیا، اس کا فون اور اس کی بندوق بھی چھین لی اور پھر ہمارا مرکزی دروازہ بھی توڑ ڈالا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پھر وہ لوگ میرے بیڈروم کے دروازے پر دستک دینے لگے، جیسے ہی ہم نے دروازہ کھولا، وہ ایمان کو گھسیٹ کر لے گئے، خواتین پولیس مجھے بھی باہر گھسیٹنے کی کوشش کر رہی تھیں، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ ہم دونوں کو گرفتار کرنے کے لیے آئے ہیں، جس پر ایک سادہ لباس میں ملبوس شخص نے دوسرے کو اشارہ کیا کہ مجھے (شیریں مزاری) کو نہ گھسیٹیں۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ انہوں نے مجھ سے ایمان مزاری کے بیڈروم کا پوچھا کیونکہ انہیں اس کا لیپ ٹاپ اور فون چاہیے تھا، پھر تقریباً 20 افراد اوپر چلے گئے، انہوں نے ایمان کا کمرہ ڈھونڈا، وہاں موجود سارا سامان الٹا دیا اور اس کا لیپ ٹاپ اور سیل فون ضبط کر لیا، نیچے آکر ایک خاتون پولیس نے مجھے کہا کہ اپنا فون بھی ہمارے حوالے کریں جو میں نے انہیں دے دیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ میری بیٹی پولیس اہلکاروں کے ساتھ جانے کو تیار تھی مگر اس نے صرف اپنے کپڑے تبدیل کرنے اجازت مانگی، لیکن انہوں نے کہا کہ کوئی ضرورت نہیں ہے اور اسے گھسیٹ کر لے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ تقریباً 20 افراد گھر میں داخل ہوئے تھے جبکہ مزید اہلکار باہر کھڑے تھے، ان کے ساتھ 6 خواتین پولیس افسران تھیں لیکن اسلام آباد پولیس کی نیلی وردی پہنے ہوئے کوئی مرد نہیں تھا۔

واضح رہے کہ رواں برس 9 مئی کے واقعے کے بعد شیریں مزاری کو بھی ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرلیا گیا تھا، رہائی کے بعد انہوں نے نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ سیاست بھی چھوڑنے کا اعلان کر دیا تھا۔

اظہارِ مذمت

ایمان مزرای کی گرفتاری کے ردعمل میں انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافیوں اور سماجی کارکنوں کی جانب سے اظہارِ مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ جس طرح اسلام آباد پولیس نے مبینہ طور پر بغیر وارنٹ کے ایمان مزاری کے گھر میں گھس کر حملہ کیا، وہ ناقابل قبول ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے مزید کہا گیا کہ یہ اظہار رائے اور احتجاج کا حق استعمال کرنے والے لوگوں کے خلاف ریاست کی طرف سے منظور شدہ تشدد کی تشویشناک مثال ہے، بیان میں وکیل کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

پوسٹ میں مطالبہ کیا گیا کہ ایمان مزاری کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔

پی ٹی آئی نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ ان غیر قانونی اقدامات کے ذریعے پاکستان کے لوگوں، خصوصاً ہماری خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی کی جارہی ہے، واضح ہوگیا کہ قانون کی حکمرانی مکمل طور پر ناپید ہوچکی ہے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ اغوا اور چھاپوں کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جانا چاہیے، اب وقت آگیا ہے کہ سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدالتیں مداخلت کریں اور اس ملک میں جاری بربریت کو روکیں، قانون کی حکمرانی کے بغیر ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔

ڈیجیٹل رائٹس کے لیے سرگرم سماجی کارکن اور انسانی حقوق کی وکیل نگہت داد نے سوال کیا کہ ایمان کو کس بنیاد پر گرفتار کیا گیا؟ وہ عدالت کے اندر اور باہر بے آواز لوگوں کے لیے آواز بلند کرتی رہی ہیں، ان کے گھر اور کمرے میں گھس کر انہیں گھسیٹ کر لے جانا انتہائی قابل مذمت ہے۔

صحافی عاصمہ شیرازی نے بھی ایمان مزاری کی گرفتاری کی مذمت کی اور امید ظاہر کی کہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اس کا نوٹس لیں گے۔

شاہ محمود قریشی سائفر کیس میں گرفتار، ایف آئی اے میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج

ایشیا کپ کے لیے 19رکنی کمنٹری پینل کا اعلان

کانگریس کو سائفر کے ’مبینہ متن‘ کا معاملہ بغور دیکھنا چاہیے، سابق امریکی مشیر