پاکستان

جڑانوالہ واقعہ: چرچ پر حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر

سپریم کورٹ اِس المناک واقعے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرے جس میں 20 گرجا گھروں اور درجنوں گھروں کو نقصان پہنچایا گیا، درخواست

وائس آف کرسچن انٹرنیشنل (وی سی آئی) نے سپریم کورٹ سے پُر زور استدعا کی ہے کہ وہ جڑانوالہ میں پیش آنے والے المناک واقعے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرے جس میں 20 گرجا گھروں اور درجنوں گھروں کو نقصان پہنچایا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ رولز 1980 کے آرڈر 33 رول 6 کے تحت پیش کی گئی ایک صفحے کی درخواست میں وی سی آئی کے ڈائریکٹر برائے انسانی حقوق سیموئیل میکسن نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ وہ انصاف کی فراہمی کے لیے کارروائی کرے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ وہ 16 اگست کے وحشیانہ واقعے کو ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد گرجا گھروں، مقدس بائبل اور علاقے میں مسیحی آبادی کے رہائشیوں کے گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔

انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پہلے ہی مذہبی اور سماجی رواداری کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے اقلیتوں کے حقوق سے متعلق 2014 میں ایک کیس کا فیصلہ دیا جا چکا ہے۔

علما نے جڑانوالہ واقعہ اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دے دیا

دریں اثنا علما نے جڑانوالہ میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کو اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دیا، انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حملے مین ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبدالخبیر آزاد نے کہا کہ سانحہ کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کا کمیشن بنایا جائے۔

مولانا عبدالخبیر آزاد نے کہا کہ اسلام اور شریعت کسی کے گھر یا عبادت گاہ کو جلانے کی اجازت نہیں دیتی، قرآن پاک کی بے حرمتی میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف مقدمات درج ہونے کے بعد بستی کو جلانا ناقابل برداشت ہے۔

چیئرمین رویت ہلال کمیٹی نے کہا کہ اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے، آئین بھی کہتا ہے کہ اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم جڑانوالہ سانحے کی شدید مذمت کرتے ہیں، پاکستان کو اس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے اور دشمن ہمیں ایک دوسرے سے لڑانے کی سازش کر رہا ہے۔

انہوں نے ریاست سے توہین مذہب میں ملوث شخص کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ لوگوں کو سڑکوں پر عدالتیں لگا کر کسی مشتبہ شخص کو سزا دینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

دوسری جانب ممتاز مذہبی اسکالر مفتی تقی عثمانی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر جڑانوالہ واقعے کو شرمناک اور انتہائی قابل مذمت قرار دیا۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر کسی نے کوئی غیر قانونی فعل کیا ہے تو قانون ہاتھ میں لینے، چرچ جلانے یا کسی پرامن عیسائی شہری پر حملہ کرنے کا کوئی بھی مجاز نہیں ہے۔

مفتی تقی عثمانی نے مزید لکھا کہ یہ واقعہ بنیادی اسلامی تعلیمات کی سراسر خلاف ورزی اور اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے مترادف ہے، حکومت اس کے خلاف فوری کارروائی کرے۔

مولانا عبدالخبیر آزاد نے کہا کہ پاکستان سب کا ہے، چاہے قرآن پاک ہو، تورات ہو یا زبور، ان (تمام مقدس کتابوں) کی عزت و تکریم ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔

سپریم کورٹ کا 2014 کا فیصلہ

2014 میں سپریم کورٹ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کرنے یا قانون کے تحت ان کے کسی بھی حقوق کی خلاف ورزی پر فوری طور پر فوجداری مقدمات درج کرنے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں وفاقی حکومت سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقاریر کی حوصلہ شکنی کی جائے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

یہ فیصلہ 22 ستمبر 2013 کو پشاور چرچ پر بم حملے کے بعد شروع کی گئی از خود کارروائی پر جاری کیا گیا تھا، اس حملے میں 81 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

32 صفحات پر مشتمل فیصلے میں اقلیتوں کے حقوق کے لیے قومی کونسل کی تشکیل کا بھی کہا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن کا عام انتخابات میں تاخیر کا دفاع، ’نئی حلقہ بندیاں آئینی تقاضا ہے‘

ٹی وی میزبان عائشہ جہانزیب ذاتی زندگی پر بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں

کانگریس کو سائفر کے ’مبینہ متن‘ کا معاملہ بغور دیکھنا چاہیے، سابق امریکی مشیر