پاکستان

حلقہ بندیوں کو انتخابات میں یقینی تاخیر کا جواز بنانے پر الیکشن کمیشن پر تنقید

قبل از وقت اسمبلی تحلیل کرنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تیاریوں کے لیے مناسب وقت فراہم کیے جائے، سینیٹر شیری رحمٰن

سیاسی رہنماؤں، وکلا برادری اور سول سوسائٹی کی جانب سے حلقہ بندیوں کو انتخابات میں تاخیر کے جواز کے طور پر استعمال کرنے پر الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک روز قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیاں کروانے کے فیصلے کے اعلان کے ساتھ یہ واضح کردیا گیا تھا کہ انتخابات 2023 میں نہیں ہوسکتے۔

جمعرات (17 اگست)کو الیکشن کمیشن نے ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کے مطابق حلقہ بندیاں کرانے کا شیڈول جاری کردیا تھا، اس تازہ مردم شماری کو پی ڈی ایم حکومت نے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے سے چند روز قبل نوٹیفائی کیا تھا۔

ٹائم لائن کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کی نئی حلقہ بندی کا عمل عام انتخابات کے انعقاد کے لیے 90 روز کی ڈیڈ لائن گزرنے کے ایک ماہ بعد 14 دسمبر تک مکمل کر لیا جائے گا۔

پیپلزپارٹی نے حلقہ بندیوں کے لیے انتخابات کے انعقاد کی 90 روز کی آئینی ڈیڈ لائن سے تجاوز کرتے شیڈول کا اعلان کرنے پر الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا اور بروقت انتخابات کا مطالبہ کیا۔

پیپلزپارٹی کی نائب صدر و سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن کا شیڈول انتہائی تشویش ناک اور مایوس کن امر ہے۔

پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کرنے کے اقدام کی تائید کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام کا مقصد ہی یہی تھا کہ حکمت عملی کے تحت الیکشن کمیشن کو تیاریوں کے لیے مناسب وقت فراہم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں تازہ مردم شماری کے تحت انتخابات کی حمایت کی تھی کیونکہ اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ موجودہ نشستیں بدستور برقرار رہیں گی اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ انتخابات غیرضروری طور پر ملتوی نہ ہوں۔

سینیٹر شیری رحمٰن نے الیکشن کمیشن سے آئین کے آرٹیکل 224 کی شقوں کے مطابق الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کا مطالبہ کیا، انہوں نے جس آئینی شق کا حوالہ دیا وہ الیکشن کمیشن کو اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز کے اندر عام انتخابات کرانے کا پابند کرتی ہے۔

الیکشن کمیشن کا اعلان آئین کی خلاف ورزی ہے، رضا ربانی

پیپلز پارٹی کے ایک اور رہنما میاں رضا ربانی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا 14 دسمبر کو حلقہ بندیوں کا عمل مکمل کرنے کا اعلان آئین کے آرٹیکل 224 کی خلاف ورزی ہے۔

سابق چیئرمین سینیٹ نے مزید کہا کہ آئینی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے حلقہ بندیوں کے دورانیے کو مختصر کیا جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن کے پاس حلقہ بندی کے عمل کے لیے عملہ کم ہے تو وہ اس کام کو تیزی سے مکمل کرنے اور 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے اضافی عملہ فراہم کرنے کا کہہ سکتا ہے۔

سول سوسائٹی کا ردعمل

سول سوسائٹی کے 2 اداروں، پتان ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن اور کولیشن 38 نے بھی متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ حلقہ بندیوں کے لیے 2023 کی مردم شماری کا استعمال نہ کرے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 5 اگست کو ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے انعقاد میں آئینی جواز کا فقدان تھا کیونکہ اس کے 2 اراکین (وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور وزیراعلیٰ پنجاب) نے نگران عہدیداروں کی حیثیت سے اجلاس میں شرکت کی، آئین نگران وزرائے اعلیٰ کو کوئی پالیسی فیصلہ لینے کی اجازت نہیں دیتا۔

الیکشن کمیشن کا عام انتخابات میں تاخیر کا دفاع، ’نئی حلقہ بندیاں آئینی تقاضا ہے‘

ڈی ویلیئرز نے ورلڈ کپ کی چار سیمی فائنلسٹ ٹیموں کی پیش گوئی کردی

ایران کے وزیر خارجہ کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات