پہلی بار عمرے پر گیا تو خاتون نے پوچھا کہ ’اپنے پیسوں سے آئے ہو یا کسی نے دیے ہیں‘، فہد مصطفیٰ
پاکستان کا مقبول ترین گیم شو ’جیتو پاکستان‘ کے میزبان اور اداکار فہد مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ جب وہ پہلی بار عمرہ ادا کرنے گئے تو ایک خاتون نے پوچھا کہ ’اپنے پیسوں سے آئے ہو یا کسی نے دیے ہیں‘۔
فہد مصطفیٰ پاکستان کے نامور اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ کامیاب میزبان بھی ہیں، انہوں نے بگ بینگ انٹرٹینمنٹ کے نام سے اپنی پروڈکشن کمپنی بھی شروع کی ہے جس کےتحت نامور ڈراما سیریلز تخلیق کیے جاتے ہیں۔
حال ہی میں انہوں نے سما ٹی وی کے پروگرام ’حد کردی‘ میں شرکت کی جہاں انہوں نے اپنے کریئر کے علاوہ دیگر موضوعات سے متعلق گفتگو کی۔
فہد مصطفیٰ نے پروگرام کے شروع میں بتایا کہ ان کے والد صلاح الدین تونیو اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ محکمہ انسداد منشیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور چیف ڈرگ انسپکٹر تھے، فہد مصطفیٰ نے اپنے والد کے کہنے پر فارمیسی کی ڈگری حاصل کی۔
انہوں نے بتایا کہ ’والد کے مطابق فارمیسی کرنے کے بعد مجھے فوراً کسی بھی ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری مل جانی تھی لیکن پیسہ تو ویسے بھی آجاتا ہے، انسان کو وہ کام کرنا چاہیے جسے کرنے میں مزا آئے اور پھر میں نے اداکاری شروع کردی۔ ’
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے والد کو اندرونِ سندھ کے ڈاکو اٹھا کر لے گئے تھے، ’چونکہ میرے والد سرکاری ملازم ہونے کے ساتھ اداکار بھی تھے اس لیے ڈاکوؤں نے انہیں پہچان لیا اور ایک محفوظ مقام پر چھوڑ دیا۔ ’
فہد مصطفیٰ نے بتایا کہ ’کمال کی بات یہ ہے کہ ڈاکوؤں نے والد کو سندھی اجرک کے ساتھ کچھ یادگار کے طور پر چیزیں ساتھ دیں اور محفوظ مقام پر چھوڑ کر چلے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہمارا بھی جب چوروں سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ ہمیں پہچان لیتے ہیں اور چھوڑ دیتے ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں فہد مصطفیٰ نے یہ بھی بتایا کہ اپنے کریئر کے پہلے ڈرامے ’راج ہنسنی‘ میں وہ ہمایوں سعید کے بیٹے بنے تھے، اس وقت اداکار اپنی ’امیج‘ پر بحث نہیں کرتے تھے، آج ’امیج‘ بنانے کی وجہ سے اداکار بہت زیادہ کنفیوز ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی اداکار جب بولی وڈ میں اداکاری کرنے جارہے تھے تو وہ پاکستان میں اپنا نام بنانے میں مصروف تھے اور آج ایک بار پھر وہ یہی کررہے ہیں۔
فہد مصطفیٰ نے بتایا کہ آج بہت سے اداکار نیٹ فلکس میں کام کرنے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور پھر اپنے 4، 5 سال برباد کردیں گے، اس دوران میں نے ویب سیریز پروڈیوس کی ہے۔
’اگر پاکستان کے اداکار، رائٹرز اور ڈائریکٹرز ہماری انڈسٹری کو سنجیدہ لیں تو میرے خیال میں پاکستان کے اندر صلاحیت ہے کہ ہم خود اپنا پورٹل بنا سکیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی انڈسٹری کو سنجیدہ نہیں لیتے، جب ہر طرف افراتفری ہو تو مواقع زیادہ ہوتے ہیں اور اس وقت ملک میں بہت زیادہ افراتفری مچی ہوئی ہے‘۔
فہد مصطفیٰ نے ایک واقعہ یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب میں زندگی میں پہلی بار عمرہ ادا کرنے گیا تھا تو وہیل چیئر پر بیٹھی تقریباً 70 یا 80 سالہ بزرگ خاتون نے مجھے پہچانا اور اپنے پاس بلایا، میں سمجھا کہ شاید دعا یا پیار دینے کے لیے بلا رہی ہیں لیکن جب میں ان کے پاس گیا تو خاتون نے کہا کہ ’بیٹا اپنے پیسے سے آئے ہو یا کسی نے دیے ہیں‘۔
فہد مصطفیٰ نے انکشاف کیا کہ جب انہوں نے گیم شو ’جیتو پاکستان‘ کی میزبانی کرنا شروع کی تو ابتدائی دنوں میں انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، انہیں لگا کہ یہ شو بند کرلینا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ ’جب میں جیتو پاکستان کررہا تھا تو میں نے اپنی مینجمنٹ سے پوچھا کہ ہم یہ شو کیوں کررہے ہیں، ایسا شو عامر لیاقت بھی کرتے ہیں، تو ہمیں یہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘۔
فہد مصطفیٰ نے یہ بھی بتایا کہ ’میں جیتو پاکستان کے ابتدائی دنوں میں بہت زیادہ گھبراہٹ کا شکار تھا، اس لیے شو کے دوران ادھر سے اُدھر بھاگتا رہتا تھا، مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کرنا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’شو کے دوران میں بھرپور انرجی سے یہاں وہاں بھاگتا ہوں وہ اصل میں میری گھبراہٹ ہوتی ہے جسے لوگ بے حد پسند کرتے ہیں‘، فہد مصطفیٰ نے ہنستے ہوئے کہا کہ اب مجھے نروس ہونا پڑتا ہے جب مجھے شو کے دوران یہاں وہاں بھاگنا ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ’میرا لوگوں سے رابطہ اور میل جول جعلی نہیں ہے، شو کے دوران میں آنسو بیچنا نہیں چاہتا، لوگ ڈانس کرتے ہیں، انٹرٹینمنٹ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ’
فہد مصطفیٰ نے یہ بھی بتایا کہ ’میرے شو میں لڑکیاں بھی ڈانس کرنا چاہتی ہیں لیکن ہمارا ملک ایسا ہے جہاں معاشرے میں بہت سی باتیں قبول نہیں کی جاتیں، لوگوں میں بہت زیادہ ٹیلنٹ ہے۔
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جب انہوں نے جیتو پاکستان شروع کیا تو سب کو لگ رہا تھا کہ شو بند ہوجائے گا لیکن رمضان کے مہینے میں شو کی ریٹنگ بہت زیادہ بڑھ گئی اور آج میرے شو کو 10 سال ہوگئے ہیں۔ ’
فہد مصطفیٰ نے بولی وڈ اداکار رنویر سنگھ سے ملاقات کی کہانی پر بھی تفصیلی گفتگو کی۔
ان کا کہنا تھا کہ رنویر سنگھ کو کیا معلوم کہ ہم کون ہے اور وہ کس سے بات کررہے ہیں، ’ہمیں تو ظاہر ہے معلوم تھا لیکن انہیں کیا پتا کہ ہم کون ہیں؟ چونکہ میری طرح رنویر سنگھ بھی سندھی ہیں اسی لیے ہم نے ایک دوسرے سے ملاقات کی۔
فہد مصطفیٰ نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کے سندھی لوگ اور ہندوستان کے سندھی لوگ ایک زبان کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جڑے ہیں، اسی بنیاد پر میری رنویر سندھ سے ملاقات ہوئی ورنہ نہ انہیں ہماری ضرورت ہے نہ میری رنویر سے کئی سالوں پرانی دوستی ہے۔
فہد مصطفیٰ نے پروگرام کے آخر میں بتایا کہ ان کا شوبز انڈسٹری کے اندر اور باہر کوئی دوست نہیں ہے، میں سچے دوستوں پر یقین رکھتا ہوں لیکن میرے بچپن کے دوست اب دوست نہیں رہے کیونکہ اس وقت میں بہت مصروف رہتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’اب انڈسٹری میں مجھ سے کوئی دوستی نہیں کرتا، سب کے اپنے مقاصد ہیں، مجھے جلدی معلوم ہو جاتا ہے جب کوئی اپنے مقصد کے لیے مجھ سے دوستی کرتا ہے‘۔