قرآن پاک کی بے حرمتی کے بعد دہشت گردی کے الرٹ میں اضافہ
قرآن پاک کی بے حرمتی پر مسلم دنیا کے اظہار برہمی اور ردعمل کے خوف کے پیش نظر سویڈن کی انٹیلی جنس ایجنسی نے دہشت گردی کے انتباہ کی سطح کو بڑھا کر چار کر دیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سویڈش سیکیورٹی پولیس کے سربراہ چارلیٹ وون ایسن نے صحافیوں کو بتایا کہ 2016 سے برقرار سطح سے بڑھا دیا گیا ہے اور اس کی سطح پانچ میں سے چار کردی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کی وجہ سویڈن پر حملے کی دھمکیوں کے حوالے سے بگڑتی ہوئی صورتحال ہے اور اندازہ ہے کہ یہ خطرہ طویل عرصے تک برقرار رہے گا۔
چارلیٹ وون ایسن نے زور دے کر کہا کہ خطرے کی سطح کو بڑھانے کا فیصلہ کسی ایک واقعے کی وجہ سے نہیں بلکہ اجتماعی تشخیص کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
پڑوسی ملک ڈنمارک کی طرح سویڈن میں بھی حالیہ مہینوں میں عوامی سطح پر قرآن پاک کی بے حرمتی کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں جس نے مسلم ممالک میں بڑے پیمانے پر غم و غصے کو جنم دیا ہے۔
عراقی مظاہرین نے جولائی میں بغداد میں سویڈن کے سفارت خانے پر دو بار دھاوا بولا تھا اور دوسری مرتبہ کیے گئے حملے میں عمارت کے اندر آگ لگا دی تھی۔
جدہ میں قائم آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن نے بھی سویڈن اور ڈنمارک کی جانب سے قرآن کی بے حرمتی پر کارروائی نہ کرنے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
پچھلے ہفتے بیروت میں سویڈش سفارت خانے پر دیسی ساختہ بم پھینکا گیا جو پھٹ نہیں سکا تھا اور کسی بھی قسم کا جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا تھا البتہ القاعدہ نے ایسے ممالک پر حملے کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ان مظاہروں کی وجہ سے سویڈن نے یکم اگست سے سرحدی کنٹرول کو بڑھا دیا تھا اور کئی مغربی ممالک نے اپنے شہریوں سے کہا تھا کہ وہ بلاضرورت سویڈن کے سفر سے گریز کریں
امریکا نے گزشتہ ماہ 26 جولائی کو اپنے شہریوں پر زور دیا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر سویڈن میں زیادہ احتیاط برتیں۔
اسی طرح اتوار کے روز برطانیہ کے دفتر خارجہ نے کہا کہ دہشت گرد سویڈن میں حملے کی کوشش کر سکتے ہیں، سویڈن میں حکام نے منصوبہ بندی سے کیے جا رہے متعدد حملوں کو کامیابی سے روکا ہے اور متعدد گرفتاریاں کی ہیں۔
تاہم سویڈش حکام نے حملہ ناکام بنانے یا گرفتاریاں کیے جانے کے حوالے سے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
سویڈن نے قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات کی مذمت کی ہے لیکن آزادی اظہار اور اجتماع سے متعلق اپنے قوانین کو تاحال کسی بھی تبدیلی سے انکار کیا ہے۔
البتہ حکومت نے مخصوص حالات میں مقدس اوراق کی بے حرمتی سے متعلق مظاہروں کو روکنے کے لیے قانونی ذرائع تلاش کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے حالانکہ اکثریت ایسی تبدیلی کی مخالفت کرتی نظر آتی ہے۔