پاکستان

جڑانوالہ واقعے سے اسلام اور پاکستان کو زخم لگا ہے، طاہر اشرفی

ہم جڑانوالہ واقعے پر شرمندہ ہیں اور آج اس چرچ میں اپنے مسیحی قائدین کے پاس معافی مانگنے آئے ہیں، چیئرمین پاکستان علما کونسل

پاکستان علما کونسل کے چیئرمین علامہ طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ ہم کل جڑانوالہ میں ہونے والے واقعے پر مسیحی برادری سے شرمندہ ہیں، اس واقعے سے اسلام اور پاکستان کو زخم لگا ہے اور واقعے کے ذمہ داران نے عالمی سطح پر ہمارے مقدمے کو کمزور کیا ہے۔

لاہور میں مسیحی برادری کے قائدین کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ اس وقت پورا پاکستان غمزدہ ہے، جو آج جڑانوالہ میں جو ہوا ہے وہ صرف مسیحی برادری پر نہیں ہوا، وہ زخم پاکستان کو لگا ہے، وہ زخم اسلام کو لگا ہے، ہم شرمندہ ہیں اور آج ہم یہاں لاہور کے اس چرچ میں اپنے مسیحی قائدین کے پاس معافی مانگنے آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم شرمندہ ہیں کیونکہ پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں رہنے والے مسیحی، ہندو، سکھ یا دیگر اقلیتوں سے جینے کا حق چھین لیا جائے، میں یہ قبیح عمل کرنے والوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ انہوں نے کس کو خوش کرنے کے لیے کیا ہے، ہمارے پیارے نبیﷺ نے تو اپنی مسجد میں نجران کے مسیحیوں کو عبادت کی اجازت دی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے یہ عمل کیا ہے انہوں نے حضرت محمدﷺ کی موجودگی میں نجران کے مسیحیوں سے کیے گئے معاہدے کو پھاڑا ہے اور اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ صرف عبادت گاہیں نہیں بلکہ عبادت گاہوں میں لگائی گئی گھنٹیوں کی بھی حفاظت کرنی ہے۔

طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ ان کی جان و مال، عزت و آبرو کا تحفظ ریاست اور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، کل جو جڑانوالہ میں جو ہوا اس پر ہم سمجھتے ہیں کہ بڑے بھائی ہونے کے ناطے ہم اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر سکے، ہم شرمندہ ہیں، ہم معافی کے طلب گار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں سوال کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کون لوگ ہیں جو ہر دو ماہ کے بعد، تین ماہ کے بعد ایسے واقعات کرتے ہیں، یہ کس کے ماننے والے ہیں، ان کا تعلق کس سے ہے، اللہ کی قسم نہ یہ اسلام کی تعلیم ہے نہ یہ محمد رسول اللہﷺ کی تعلیم ہے کہ آپ کسی کو نقصان پہنچائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ریاست پاکستان کی طرف سے، وزیراعظم پاکستان کی طرف، حکومت پاکستان کی طرف سے، پاکستان کے علما، مشائخ اور مسلم عوام کی طرف سے بشپ صاحب آپ سے معافی مانگتا ہوں، ہم ان مسیحی بچیوں سے شرمندہ ہیں جنہوں نے رات کھیتوں اور سڑکوں پر گزاری ہے، جو اس خوف سے گھروں سے چلے گئے کہ کہیں ہمارے گھروں کو نقصان نہ پہنچ جائے۔

پاکستان علما کونسل کے چیئرمین نے کہا کہ میں آج یہ سوال اپنی عدلیہ سے بھی کرنا چاہتا ہوں، اپنی حکومتوں سے بھی کرنا چاہتا ہوں، میں اس معاملے میں کئی بار چیخ و پکار کر چکا ہوں کہ اگر جوزف کالونی کے مجرموں کو سزا دی گئی ہوتی تو آج ممکن ہے یہ معاملہ نہ ہوتا، ہمارے عدالتی نظام نے مسیحی کو تو سزا سنا دی لیکن جنہوں نے سیکڑوں لوگوں کو گھروں سے بے گھر کیا، ان کو کوئی سزا نہیں سنائی۔

ان کا کہنا تھا کہ کبھی ہم جڑانوالہ کا رونا روتے ہیں، کبھی ہم شانتی نگر کا رونا روتے ہیں، کبھی ہم قصور کا رونا روتے ہیں، پوری قوم چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ عدالت بھی اسی چرچ میں لگاؤ جس کی صلیب کو توڑا گیا، ایک ماہ میں ٹرائل کرو، قوم چاہتی ہے کہ ان مجرموں کو سزا ملے، 9 مئی کے مجرموں کی طرح اس کیس کو لمبا نہ کرو، ہم تھک گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف ہم قرآن کریم کے تقدس کے لیے یہاں سارے جمع تھے، آج انجیل اور زبور کو جلایا گیا ہے، آج تورات کو جلایا گیا ہے، یہ قرآن میرے لیے جتنا مقدس ہے، اللہ کی یہ کتابیں بھی مقدس ہیں اور جنہوں ان کو جلایا ہے، میرا دکھ اتنا ہی ہے جتنا قرآن مجید کے جلانے کا ہے، مجھے ایک چرچ کو گرانے کا اتنا ہی دکھ ہے جتنا کسی مسجد کو گرائے جانے کا ہوتا، جتنا صلیب کو توڑنے کا دکھ ہے۔

علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ اس شرم ناک فعل میں ملوث لوگوں نے ہمارا مقدمہ کمزور کیا ہے، ہم سویڈن اور ڈنمارک میں ہونے والے واقعات پر رو رہے تھے، انہوں نے یہ عمل کر کے ہمارے مقدمے کو کمزور کیا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ جتنے چرچ نشانہ بنائے گئے ہیں، مقدس مقامات نشانہ بنائے گئے ہیں، مسیحی آبادی کے گھر نشانہ بنائے گئے ہیں، حکومت پاکستان سے میرا مطالبہ ہے کہ وہ اپنے ذریعے سے ان تمام مقدس مقامات کو بحال کرے، جہاں عمارتیں ٹوٹی ہیں ان عمارتوں کو بنایا جائے، جو نقصان ہوا ہے اس کو پورا کیا جائے، جو گھر جلے ہیں اس کا نقصان پورا کیا جائے، میں بطور چیئرمین پاکستان علما کونسل مطالبہ کرتا ہوں کہ جو جو نقصان ہوا ہے حکومت اس کو پورا کر کے دے۔

انہوں نے کہا کہ چرچ کو بھی جو نقصان ہوا ہے ان کو بحال کیا جائے اور پھر وزیراعظم پاکستان خود وہاں تشریف لائیں تاکہ ہم دنیا کو بتائیں کہ یہ جو وحشت اور دہشت ہے، اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس موقع پر آرک بشپ سباسٹین شاہ صاحب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس وقت کافی دکھ کی بات ہے، مسیحی تکلیف اور پریشانی میں ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دو دن قبل 14 اگست پورے ملک میں منایا گیا اور سب نے یہی ترانے گائے کہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں لیکن اس واقعے نے اتنا خوف پیدا کیا کہ بچے گھر چھوڑ کر بھاگ گئے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پریشانی اور گھروں کو چھوڑ کر جانے کا عمل کل تقریباً صبح 6 بجے سے شروع ہو گیا تھا، کس نے یہ سب جلایا اور وہاں اپنے نام بھی لکھے ہوئے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ خاص منصوبہ کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم 96فیصد مسلمان بھائی بہنوں کے درمیان رہتے ہیں اور مسیحی کل ملا کر دو فیصد ہیں، اگر کسی بستی میں 100 کے قریب مسلم خاندان ہیں تو وہاں 5 یا 6 مسیحی گھرانے ہوتے ہیں، ان کی آپس میں بنتی ہے اسی لیے یہ ساتھ رہتے ہیں، کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہے، یہ ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر کھانا بھی کھاتے ہیں، شادی بیاہ میں بھی شریک ہوتے ہیں۔

آرک بشپ نے کہا کہ ہر مسیحی کو پتا ہے کہ قرآن پاک میں 20 سے زائد مرتبہ یسوع مسیح کا نام لیا گیا ہے، ایک پوری سورت حضرت مریم کے نام سے ہے، سورۃ آل عمران میں حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا واقعہ بھی ہے، اس لیے کوئی بھی مسیحی قرآن پاک کو جلانا تو دور اس کو کچھ کہنا بھی گوارا تک نہیں کر سکتا۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی نے قرآن پاک جلایا تو سنا ہے کہ وہاں لکھا ہے کہ میرا نام یہ ہے اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کوئی بھی ذی ہوش شخص اس طرح کام کرے اور اسے پتا ہے کہ ملک میں قانون 295 اے، بی، سی موجود ہے، اسے معلوم ہے کہ ہمارے مسلمان بھائیوں کے قرآن پاک سے عشق کی کوئی انتہا نہیں، وہ اس معاملے پر جان دے دیں گے اور قربان ہو جائیں تو میں یہ سوچتا ہوں کہ کوئی شخص ایسا کرے تو اس کو پتا ہے کہ اگر میں یہاں ایسا کروں تو مجھے تو یہاں زندہ زمین کھا جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کی اپنی ذاتی رنجشیں ہیں، پیسوں کا لین دین ہے، کئی چیزیں ہیں تو جس کسی نے بھی یہ کیا ہے وہ انتشار پھیلانے کے لیے کیا ہے، سب سے پہلے میں بھی قرآن پاک کے جلائے جانے پر بہت شرمندہ بھی ہوں اور اس کے لیے ہم معذرت کرنے کے ساتھ ساتھ مذمت بھی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے مسلم بھائیوں سے بھی درخواست کروں گا کہ ہمیں تھوڑا صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے کہ حکومت پاکستان میں قانون موجود ہے، ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس کی تحقیق کرائی جاتی ہے بجائے اس کے کہ مسجدوں میں اعلان ہو جاتا ہے اور وہ اکٹھے ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور لوگوں نے اکٹھا ہو کر ایک دم دھاوا بول دیا۔

مسیحی برادری کے رہنما نے کہا کہ مساجد میں اعلان کے بعد 20 سے زائد چرچ جلائے گئے، اس بستی میں 5 یا 6 ہی چرچ تھے اور اس سے متصل چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں لیکن وہاں بھی یہی کام شروع ہو گیا، چرچ جلانے کے ساتھ انجیل مقدس، زبور، تورات کو بھی جلا دیا گیا، گرجوں پر چڑھ کر صلیبیں توڑی گئیں، بے حرمتی کی گئی اور پھر آخر میں قبرستان میں جا کر قبروں کو مسمار کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا کہ ہجوم اتنا بڑا ہے کہ پولیس ان کے سامنے کچھ نہیں کر سکتی، پولیس بالکل بے بس ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ مسیحیوں پر ہوا لیکن اس کا اثر پاکستان اور پوری قوم پر ہوا، یہ حملہ پاکستان کی ساکھ پر ہوا ہے۔

آرک بشپ نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعے کی تحقیق کی جائے، جن لوگوں نے یہ کام کیا ہے انہیں بلا تفریق سزا دی جائے تاکہ آئندہ ملک میں ایسے واقعات نہ ہوں۔