صحت

خنزیر کے گردے کی انسانی جسم میں پیوند کاری

پہلی بار ڈاکٹروں نے ایک خنزیر کے گردے کی پیوندکاری یا ٹرانسپلانٹ کا تجربہ ذہنی طور پر مردہ قرار دینے والے شخص پر کیا ہے۔

امریکا کے سرجنز نے پہلی بار ذہنی طور پر مردہ قرار دیے گئے شخص میں خنزیر کے گردے کی پیوندکاری کا تجربہ کیا ہے جو انسانی جسم میں ایک ماہ کے زائد عرصے تک معمول کے مطابق کام کررہا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق نیویارک یونیورسٹی لینگون ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ کے سرجنز نے اس تجربے کو بڑی پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ شخص ذہنی طور پر مردہ ہے لیکن پہلی بار کسی انسان میں خنزیر کا گردہ معمول کے مطابق کام کررہا ہے۔

امریکا کے سرجنز نے موریس ملر نامی 57 سالہ شخص کے جسم میں گردے کی پیوندکاری کا تجربہ کیا جسے ڈاکٹرز نے ذہنی طور پر مردہ قرار دیا تھا، موریس کے خاندان نے ان کا جسم سائنسی تجربے کے لیے عطیہ کردیا تھا۔

موریس کو ذہنی طور پر مردہ قرار دینے کے پیچھے کیا وجوہات اور طبی رپورٹ کے حوالے سے تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں البتہ ڈاکٹرز نے انہیں ذہنی طور پر مردہ قرار دیا ہے۔

تاہم یہ شخص وینٹی لیٹر کی مدد سے اب بھی سانس لے رہا ہے۔

یونیورسٹی لینگون ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر رابرٹ مونٹگمری نے بتایا کہ خنزیر کے گردے کو جینیاتی طور پر تبدیل کیا گیا ہے جو انسان میں ایک ماہ تک معمول کے مطابق کام کررہا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس تجربے کے نتائج کو مستقبل میں زندہ مریضوں کے مطالعے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے، اس تجربے میں استعمال ہونے والے خنزیر کے گردے کو جینیاتی طور پر تبدیل کیا گیا تھا تاکہ اُس جین کو خارج کیا جاسکے جو بائیو مالیکیول پیدا کرتا ہے۔

خنزیر کے گردے سے خارج شدہ جین سے پیدا ہونے والے بائیو مالیکیول انسانوں کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔

سائنسدانوں کو امید ہے کہ کراس اسپیسز ٹرانسپلانٹس (cross-species transplants) بہت سے لوگوں کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے جو انسانی اعضا کی پیوندکاری کے لیے انتظار میں ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ وہ اس تجربے کی مزید ایک ماہ تک نگرانی کرتے رہیں گے۔

سرجری ریسرچ کے مرکزی مصنف جیمی ای لوک کہتے ہیں کہ یہ تاریخ میں پہلی بار ہے کہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خنزیر کا گردہ انسانی جسم میں معمول کے مطابق کام کررہا ہے۔

یو این او ایس کے چیف میڈیکل افسر ڈیوڈ کلاسن نے بتایا کہ یہ زندہ مریضوں میں کلینیکل ٹرائلز میں ایک اہم قدم ہے کیونکہ یہ کسی نارمل انسان کو طویل مدت تک زندہ رکھنے کے حوالےسے اہم ثابت ہوسکتا ہے۔

سائنسدانوں کو امید ہے کہ مستقبل میں انسانوں کی جان بچانے کے لیے جانوروں کے اعضا استعمال ہوسکیں گے، سائنسی تحقیق کے لیے عطیہ کی گئی لاشیں تحقیق اور تجربات میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

ذہنی طور پر مردہ شخص کی بہن میری ملر نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ میرا بھائی بھی یہی چاہتا تھا، میرے بھائی کا نام میڈیکل کتابوں میں شامل ہوگا اور وہ ہمیشہ زندہ رہے گا‘۔

واضح رہے کہ 2022 میں یونیورسٹی آف میری لینڈ کے سرجنز نے 57 سالہ بیمار شخص میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خنزیر کے دل کا ٹرانسپلانٹ کیا تھا تاہم اس شخص کی 2 ماہ بعد موت واقع ہوگئی تھی۔

محققین کا کہنا ہے کہ خنزیر میں ایک ہزار پروٹین ہوتے ہیں جو انسانوں میں نہیں ہوتے، اور یہ دیکھنے میں 10 سے 14 دن لگ سکتے ہیں کہ خنزیر کا اعضا کسی شخص کے مدافعتی نظام پر کیسے رد عمل ظاہر کرتا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا میں اس وقت ایک لاکھ 3 ہزار سے زائد لوگ اعضا کی پیوند کاری کے منتظر ہیں، جن میں سے 88 ہزار مریضوں کو گردوں کی پیوندکاری کے انتظار میں ہیں اور امریکا میں ہر سال ہزاروں مریض انسانی اعضاء کی پیوندکاری کے لیے انتظار میں مرجاتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں سائنسدان بندروں سے توجہ ہٹا کر خنزیر پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے جینز میں تبدیلیاں لائے۔

ستمبر 2021 میں نیویارک کے محققین نے خنزیر کے گردے کو ایک مردہ انسانی جسم میں عارضی طور پر ٹرانسپلانٹ کیا اور اسے کام کرتے ہوئے دیکھا۔

ماضی میں اس طرح کی پیوندکاری کی کوششیں اس لیے بھی ناکام رہی کیونکہ مریضوں کے جسم نے جانوروں کے اعضا کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ان میں سب سے زیادہ مشہور 1984 کا کیس ہے جس میں بے بی فائی میں ببون کے دل کی پیوندکاری ہوئی اور جس کے 21 دن بعد اس کا انتقال ہوا۔

خنزیر کے دل کی پیوندکاری کرانے والے شخص کی سرجری کے دو ماہ بعد موت

پہلی بار خنزیر کے دل کی انسانی جسم میں پیوند کاری

پنجاب: پیوندکاری کیلئے ’اعضا کے تبادلے‘ کا منصوبہ منظور