بھارت، چین کا ’متنازع سرحد‘ پر امن برقرار رکھنے کا عزم
چین اور بھارت کے فوجی حکام نے کشیدگی میں اضافے کے بعد صورتحال پرامن بنانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی متنازع سرحد پر امن و آشتی برقرار رکھنے کا عزم کیا ہے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کی وزارت دفاع نے ایک جیسے بیانات جاری کرتے ہوئے کہا کہ اتوار اور پیر کو ہونے والے کمانڈرز سطح کے مذاکرات میں 19ویں دور میں ایک مثبت، تعمیری اور گہرائی سے بات چیت کی گئی جس کا مرکز سرحد کے مغربی سیکٹر میں ایکچوئل لائن آف کنٹرول سے متعلق مسائل حل کرنا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ دونوں فریقین دیگر مسائل کو تیزی سے حل کرنے پر راضی ہیں، لیکن اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو رعایت دینے کے لیے تیار ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ عبوری طور پر، دونوں فریقین نے سرحدی علاقوں میں امن و سکون برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے چشول-مولڈو قصبے میں بھارتی فوجی چوکی پر ہونے والی بات چیت کی تعریف کی اور دونوں فریقین کے فوجی اور سفارتی ذرائع سے رابطے اور بات چیت کی رفتار برقرار رکھنے کا عزم اجاگر کیا۔
لائن آف ایکچوئل کنٹرول چین اور بھارت کے زیر قبضہ علاقوں کو مغرب میں لداخ سے بھارت کی مشرقی ریاست اروناچل پردیش تک الگ کرتی ہے، جس پر چین کا دعویٰ ہے۔
واضح رہے کہ بھارت اور چین نے 1962 میں اپنی سرحد پر جنگ لڑی تھی۔
بھارت کے مطابق ڈی فیکٹو بارڈر 3 ہزار 488 کلومیٹر پر مشتمل ہے لیکن چین کا دعوٰی اس کے برعکس ہے۔
مجموعی طور پر چین بھارت کے شمال مشرق میں تقریباً 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر دعویٰ کرتا ہے، جس میں اروناچل پردیش بھی شامل ہے جہاں بدھ مت مذہب کی آبادی ہے۔
بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے اکسائی چن کی پہاڑیوں میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹرعلاقے پر قبضہ کر رکھا ہے جہاں دونوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
تاہم چین نے اس دوران بھارت کے حریف پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا شروع کر دیا اور متنازع خطہ کشمیر کے معاملے پر اس کی حمایت کی۔
1967 اور 1975 میں ایک بار جھڑپیں شروع ہوئیں جس کے نتیجے میں دونوں طرف سے زیادہ اموات ہوئیں، اس کے بعد دونوں ممالک نے پروٹوکول کو اپنایا ہے لیکن وہ پروٹوکول ختم ہو چکے ہیں۔
لداخ کے علاقے میں تین سال قبل ہونے والی جھڑپ میں 20 بھارتی اور چار چینی فوجی مارے گئے تھے۔
اس پہاڑی علاقے میں دونوں ممالک نے ہزاروں فوجی اہلکار تعینات کر رکھے ہیں جنہیں توپ خانے، ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں سے لیس کیا گیا ہے۔
بھارت اور چین نے پینگونگ تسو، گوگرا اور وادی گالوان کے شمالی اور جنوبی کنارے کے کچھ علاقوں سے فوجیں ہٹا لی ہیں، لیکن کچھ علاقوں میں اضافی فوجیوں کو برقرار رکھنا جاری رکھا ہے۔
اپریل میں بھارت کے وزیر دفاع نے اپنے چینی ہم منصب جنرل لی شانگفو کے ساتھ بات چیت کے دوران چین پر دوطرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرکے ممالک کے درمیان تعلقات کی مکمل بنیاد کو ختم کرنے کا الزام لگایا تھا۔
بھارت کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں چینی فوجیوں کی تعیناتی، ان کا جارحانہ رویہ اور یکطرفہ طور پر سرحدی حالت کو تبدیل کرنے کی کوششیں ممالک کے درمیان معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔
جنرل لی شانگفو چین، بھارت، پاکستان، روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان پر مشتمل شنگھائی تعاون تنظیم کے دفاعی سربراہوں کے اجلاس میں شرکت کے لیے نئی دہلی کا دورہ کر رہے تھے۔