سائنس و ٹیکنالوجی

ٹوئٹ ڈیک استعمال کرنے کیلئے اب ویریفائڈ اکاؤنٹ ہونا لازمی قرار

اس کا اعلان گزشتہ ماہ کیا گیا تھا اور اب اس کا باقاعدہ طور پر اطلاق ہوچکا ہے۔

ٹوئٹ ڈیک (جسے اب ایکس پرو کا نام دیا گیا ہے) نامی سوشل میڈیا ٹول استعمال کرنے سے قبل اب صارفین کو ادائیگی کرنا ہوگی یعنی صارفین کو اپنا اکاؤنٹ پہلے ویریفائیڈ کرانا ہوگا۔

ٹوئٹ ڈیک ایک مفت سروس تھی، جو بڑے پیمانے پر کاروبار اور خبر رساں اداروں کی جانب سے مواد کی آسانی سے نگرانی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

جولائی میں ایلون مسک نے اعلان کیا تھا کہ صرف ویریفائیڈ اکاؤنٹس والے صارفین ہی ٹوئٹ ڈیک استعمال کرسکتے ہیں، یعنی وہ صارفین جو ٹوئٹر کی فیس ادا نہیں کرتے وہ ٹوئٹ ڈیک تک بھی رسائی حاصل نہیں کرسکیں گے۔

اس حوالے سے کی گئی ایک ٹوئٹ میں کمپنی کا کہنا تھا کہ ’ٹوئٹ ڈیک کا ایک نیا اور بہتر ورژن لانچ کیا گیا ہے، یہ تبدیلی اگست میں نافذ العمل ہوگی‘ جس کا اطلاق اب ہوچکا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز 15 اگست کو صارفین نے جب ٹوئٹ ڈیک استعمال کرنے کے لیے پلیٹ فارم کا لنک کھولا تو اسکرین پر کمپنی کی جانب سے ٹوئٹ ڈیک استعمال کرنے سے قبل رقم ادا کرنے کی تفصیلات درج تھیں۔

تفصیلات میں لکھا تھا کہ صارفین کو اپنا ایکس (ٹوئٹر کا نیا نام) اکاؤنٹ تصدیق کرنے کے لیے ہر سال 84 ڈالرز ادا کرنے ہوں گے، جس کے بعد ہی ٹوئٹ ڈیک استعمال کرسکتے ہیں۔

ٹوئٹ ڈیک کے لیے چارچز ٹوئٹر کے لیے ریونیو بڑھانے کا باعث بن سکتے ہیں، کیونکہ ایلون مسک کی جانب سے ٹوئٹر کو خریدنے کے بعد سے اشتہارات سے ریونیو بڑھانے اور آمدنی برقرار رکھنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔

ایلون مسک کی جانب سے ٹوئٹر خریدنے کے بعد پلیٹ فارم میں بہت بڑی تبدیلی کی گئی ہیں جن میں کمپنی کا اپنا نام بھی شامل ہے جسے تبدیل کرکے ’ایکس‘ کردیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ ایلون مسک نے اعلان کیا تھا کہ جو لوگ سبسکرپشن فیس ادا نہیں کرتے پلیٹ فارم ان کے لیے روزانہ پڑھی جانے والی ٹوئٹس کی تعداد کم کردے گا، اب تک صارفین کی اکثریت ایک دن میں ایک ہزار ٹوئٹس پڑھ سکتی ہے۔

یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس فیصلے کا مقصد تھرڈ پارٹیز کے ذریعے سوشل نیٹ ورک سائٹ کے ڈیٹا کے استعمال کو محدود کرنا تھا، خاص طور پر وہ کمپنیاں جو مصنوعی ذہانت کے ماڈلز فراہم کرتی ہیں۔

ٹوئٹ ڈیک ایک دہائی سے زائد پہلے لانچ کیا گیا تھا، جس میں مختلف کالمز میں مختلف میسجز ہوتے ہیں۔

ٹوئٹر نے 2011 میں لندن میں قائم ٹیکنالوجی کمپنی ٹوئٹ ڈیک کو خریدا تھا، اس وقت ٹیکنالوجی کے شعبے کے ماہرین نے اندازہ لگایا تھا کہ ٹوئٹر نے ٹوئٹ ڈیک کو حاصل کرنے کے لیے تقریباً 40 لاکھ ڈالر ادا کیے تھے۔

ٹوئٹر نے ’ٹوئٹ ڈیک‘ تک رسائی کو صارف کے ویریفائیڈ ہونے سے مشروط کردیا

ٹوئٹر پر ٹوئٹس پڑھنے کی حد مقرر، ایلون مسک کا نئی پالیسی کا اعلان

دنیا بھر میں صارفین کو ٹوئٹر کے استعمال میں دشواری کا سامنا