سکھر: صحافی جان محمد مہر کے قتل کی ایف آئی آر درج
سکھر پولیس نے سینئر صحافی جان محمد مہر کے قتل کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کر لی، جنہیں دو روز قبل شہر میں گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔
نجی سندھی اخبار اور ٹی وی چینل سے وابستہ سینئر صحافی جان محمد مہر کو اتوار کی شام سکھر میں کوئنز روڈ پر واقع سینٹ سیویئر اسکول کے قریب موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے جان محمد مہر پر کئی گولیاں چلائیں جو کہ اپنی گاڑی میں سوار تھے۔
پولیس نے بتایا کہ صحافی کے سر اور آنکھوں کے قریب گولیاں لگیں، انہیں فوری طور پر تشویش ناک حالت میں نجی ہسپتال منتقل کیا گیا۔
ہسپتال ذرائع نے بتایا تھا کہ وہ سرجری کے دوران زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔
حملے کے پیچھے محرکات کا فوری طور پر پتا نہیں چل سکا تاہم پولیس کا خیال ہے کہ انہیں پرانی دشمنی کے باعث قتل کیا گیا ہے۔
جے آئی ٹی تشکیل دینے مطالبہ
علاوہ ازیں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے نگران وزیر اعلیٰ سندھ کو خط لکھا جس میں سینئر صحافی کے قتل کی جامع تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پی ایف یو جے نے مطالبہ کیا کہ جے آئی ٹی میں انٹر سروسز انٹیلیجنس(آئی ایس آئی)، ملٹری انٹیلیجنس(ایم آئی)، وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے)، رینجرز اور سندھ پولیس کے نمائندوں کو شامل کیا جائے۔
پی ایف یو جے نے کہا کہ جے آئی ٹی مختلف تحقیقاتی اداروں کی مہارت اور وسائل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک مربوط اور مختلف الخیال نکتہ نظر فراہم کرے گی اور اس طرح مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے امکانات میں اضافہ ہوگا۔
پی ایف یو جے نے اس معاملے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے تعاون کا یقین دلایا۔
واضح رہے کہ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 میں 5 پاکستانی صحافیوں سمیت 67 صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران قتل کر دیے گئے۔
یکم مئی کو ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ’ورلڈ پریس فریڈم ڈے‘ کے موقع پر جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ حالیہ مہینوں میں ملک کا میڈیا ماحول خطرناک اور زیادہ پُرتشدد ہو گیا ہے، مئی 2022 سے مارچ 2023 کے درمیان حملوں کی تعداد 63 فیصد بڑھ کر 140 ہو گئی جو 22-2021 میں 86 تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران صحافیوں، میڈیا پروفیشنلز اور آرگنائزیشنز کے خلاف دھمکیوں اور حملوں کے کم از کم 140 کیسز رپورٹ ہوئے، جو سالانہ بنیادوں پر 60 فیصد اضافہ ہے۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے بتایا تھا کہ صحافیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ پریشان کن ہے اور فوری توجہ کا متقاضی ہے۔