پاکستان

اسلام آباد ہائی کورٹ: نظر بندی کے خلاف پی ٹی آئی رہنماؤں کی درخواستوں پر آئی جی سمیت دیگر کو شوکاز نوٹس جاری

کیس کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے پی ٹی آئی رہنما کی نظربندی کا غیر قانونی حکم نامہ غیر معمولی تحفظات کی بنیاد پر جاری کیا تھا، عدالت

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنماؤں شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار خان کی جانب سے مینٹیننس پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت نظر بندیوں کے خلاف دائر درخواستوں پر سٹی پولیس چیف، چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اور دیگر حکام کو شوکاز نوٹس جاری کردیے۔

پی ٹی آئی رہنما آفریدی کو سب سے پہلے 16 مئی کو ایم پی او آرڈیننس 1960 کے سیکشن 3 کے تحت اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ جیل سے رہائی کے فوراً بعد انہیں اسی دفعہ کے تحت 30 مئی کو دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔

بعدازاں 3 اگست کو شہریار آفریدی کو لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے ضمانت دی تھی لیکن بعد میں اڈیالہ جیل سے رہائی کے فوراً بعد راولپنڈی پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا تھا۔ بعدازاں ان کے وکیل کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں شہریار آفریدی کی رہائی اور ایم پی او آرڈر کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

دریں اثنا شاندانہ گلزار خان کو 9 اگست کو اسلام آباد پولیس نے مبینہ طور پر ’اغوا‘ کیا گیا تھا اور بعد میں ان کی والدہ کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 4، 9، 10اے اور 14 کی خلاف ورزی کی بنیاد پر غیر قانونی گرفتاری کے خلاف ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں پولیس سے ان کی بیٹی کو عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے آج شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار خان کی درخواستوں پر سماعت کی جہاں پی ٹی آئی کے دونوں رہنماؤں کا کیس ایڈووکیٹ شیر افضل خان مروت نے پیش کیا۔

شہریار آفریدی کی درخواست پر سماعت کے دوران جب سرکاری وکیل نے پی ٹی آئی رہنما کی نظر بندی کا حکم پڑھا تو جج نے استفسار کیا کہ شہریار آفریدی نے لوگوں کو اکسانے کے لیے کیا کہا تھا۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ اگر کسی شہری کو حراست میں لینا ہے تو آپ کو وجوہات بتانی ہوں گی۔

بعدازاں عدالتی حکم نامے میں جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ کیس کے ریکارڈ کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے پی ٹی آئی رہنما کی نظربندی کا غیر قانونی حکم نامہ غیر معمولی تحفظات کی بنیاد پر دیا تھا۔

حکم نامے میں لکھا گیا ہے کہ پولیس حکام کی طرف سے درخواستیں محض الزامات ہیں جن میں کوئی تفصیلات نہیں ہیں اور اس میں کوئی ایسا مواد نہیں ہے جس کی بنیاد پر ایم پی او کے سیکشن 3 کے تحت دائرہ اختیار استعمال کیا جا سکے۔

اس میں لکھا گیا ہے کہ صرف اس طرح کے مواد کی بنیاد پر کوئی بھی معقول شخص اس بات پر مطمئن نہیں ہوسکتا کہ درخواست گزار کو اس کے بنیادی حقوق پر قدغن لگاتے ہوئے حراست میں لینا ضروری ہے۔

عدالت نے کہا کہ آرڈر خود یہ کہتا ہے کہ درخواست گزار عام لوگوں کو اکسانے کے ذمہ دار ہیں اور وہ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ کورٹس پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ یہ گراؤنڈ کافی غیر معمولی ہے کیونکہ اس صورت میں جب پولیس کے پاس قابل اعتماد معلومات تھیں کہ درخواست گزار ضلعی عدالتوں پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے کا ذمہ دار تھا، اس میں ملوث شخص کو قانون کے تحت حراست میں لینے کے بجائے کسی جرم کا الزام عائد کیا جانا چاہیے تھا تاکہ مستقبل میں امن کی خلاف ورزی کو روکا جا سکے۔

مزید کہا گیا ہے کہ ضلع مجسٹریٹ کی نظر بندی کا حکم پولیس کی طرف سے محض درخواستوں کی بنیاد پر منظور کیا گیا تھا جو کہ کسی درخواست گزار کو حراست میں لینے کی ضرورت کے بارے میں اطمینان کے بغیر کیا گیا تھا جس کے خلاف تین مختلف ہائی کورٹس نے اس طرح کے احکامات کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔

جج نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو کل پیش ہونے کا حکم دیا تاکہ عدالت کو مطمئن کیا جا سکے کہ نظر بندی کا حکم قانون کے مطابق تھا۔

عدالتی حکم میں مزید کہا گیا کہ جج نے مارگلہ اسٹیشن ہاؤس افسر، اسلام آباد ڈسٹرکٹ پولیس افسر، اسلام آباد کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (آپریشنز) (ایس ایس پی) اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کوانصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اختیارات کا غلط استعمال کرنے پر توہین عدالت کے الزام میں شوکاز نوٹس جاری کرنا مناسب سمجھا۔

عدالت نے کہا کہ انہیں 24 گھنٹے کے اندر تحریری جوابات کے ذریعے وجہ ظاہر کرنے دیں کہ انہیں انصاف کی راہ میں رکاوٹ، شہری کے بنیادی حقوق مجروح کرنے، اور نظام انصاف کے اختیار اور صلاحیت کو بدنام کرنے پر عدالت سے سزا کیوں نہ دی جائے۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ ضلع مجسٹریٹ ان تمام احکامات کا ریکارڈ بھی لائے جو اس نے گزشتہ تین ماہ کے دوران ایم پی او کے تحت جاری کیے ہیں۔

عدالت نے اسلام آباد کے چیف کمشنر اور انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) کو کل کی سماعت کے لیے ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونے کے ساتھ ساتھ شہریار آفریدی کی موجودگی کو بھی یقینی بنانے کی ہدایت کی۔

اس کے علاوہ شاندانہ گلزار خان کی درخواست پر عدالت نے انہیں کل صبح 10 بجے پیش کرنے کی بھی ہدایت کی اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو گزشتہ تین ماہ میں پاس کیے گئے تمام ایم پی او آرڈرز کا ریکارڈ لانے کی ہدایت کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، آئی جی پی اور ایس ایس پی کو بھی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔

خدا کے واسطے لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں جانے دیں، محبوبہ سراج کی طالبان سے اپیل

صدرمملکت عارف علوی نے پیمرا ترمیمی بل 2023 کی منظوری دے دی

کرپشن کیس: پرویز الہٰی کا 21 اگست تک جسمانی ریمانڈ منظور