پاکستان

قومی اسمبلی کے وجود، بالادستی پر دباؤ کے خلاف استحکام کا اعتراف، 5 سالہ کارکردگی رپورٹ جاری

15ویں قومی اسمبلی نے قانون سازی کی صلاحیت کو وسعت دی اور کارکردگی کےا عتبار سے گزشتہ 3 قومی اسمبلیوں سے آگے نکل گئی، فافن

پیچیدہ سیاسی، معاشی، عدالتی اور آئینی چیلنجز سے دوچار پاکستان کی 15ویں قومی اسمبلی نے اپنے وجود اور بالادستی پر آنے والے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے قابل ذکر استحکام کا مظاہرہ کیا جو 9 اگست 2023 کو اپنی مدت پوری کرنے سے قبل تحلیل ہوگئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اعتراف فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی جانب سے گزشتہ روز جاری کردہ رپورٹ میں کیا گیا جس میں کہا گیا کہ اس اسمبلی نے قانون سازی کی صلاحیت کو وسعت دی اور کارکردگی کےا عتبار سے گزشتہ 3 قومی اسمبلیوں سے آگے نکل گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 11 فیصد کم اجلاسوں کے باوجود حال ہی میں سبکدوش ہونے والی قومی اسمبلی کی قانون سازی کے اعتبار سے کارکردگی 14ویں قومی اسمبلی کے مقابلے میں 57 فیصد زیادہ رہی، 15ویں قومی اسمبلی نے 322 بل منظور کیے جبکہ 14ویں قومی اسمبلی میں 205 بل منظور کیے گئے تھے، 13ویں اسمبلی نے اپنی مدت کے دوران 134 بل اور 12ویں اسمبلی نے صرف 51 بل منظور کیے تھے۔

تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 15ویں قومی اسمبلی میں جتنے بل منظور کیے گئے ان میں سے زیادہ تر قوانین کو ایوان کے ذریعے بلڈوز کیا گیا اور بعض مواقع پر اراکین نے یہ شکایت بھی کی کہ ایوان میں پیش کیے جانے والے مسودے ان کے ساتھ شیئر نہیں کیے گئے۔

اراکین کی جانب سے پیش کیے گئے پرائیویٹ بلوں کی باآسانی منظوری بھی 15ویں قومی اسمبلی کی پہچان بنی، جس میں باہمی تعاون کے جذبے کا مظاہرہ کیا گیا اور مخلوط حکومت کو آگے بڑھنے میں مدد ملی، منظور شدہ قوانین میں سے 30 فیصد سے زائد (99 بل) پرائیویٹ اراکین نے پیش کیے تھے اور باقی حکومت نے پیش کیے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قانون سازی کے اعتبار سے متاثر کن کارکردگی 15ویں قومی اسمبلی کی واحد خوبی نہیں ہے، اس اسمبلی نے کسی وزیر اعظم کے خلاف پہلی بار تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتے بھی دیکھی، جس کے نتیجے میں حکومت تبدیلی ہوئی۔

ماضی میں 2 وزرائے اعظم اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کا سامنا کر چکے ہیں جن میں سے پہلی تحریک 1989 میں بےنظیر بھٹو کے خلاف اور 2006 میں شوکت عزیز کے خلاف پیش کی گئی، تاہم یہ دونوں ہی اسمبلی میں اپنی اکثریت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔

یہ 1977 کے بعد پہلی قومی اسمبلی تھی جسے قائد ایوان (وزیراعظم) نے آئینی مدت پوری ہونے سے قبل رضاکارانہ طور پر تحلیل کر دیا، 1993 میں اسٹیبلشمنٹ کے زیرانتظام سیٹ اپ کے تحت قومی اسمبلی کو تحلیل کردیا گیا تھا جب صدر اور وزیر اعظم دونوں مستعفی ہوگئے تھے، دیگر تمام قبل از وقت تحلیل شدہ اسمبلیوں کو بدنام زمانہ آرٹیکل 58 (2) (بی) کے صدارتی استعمال کے ذریعے تحلیل پر مجبور کیا گیا۔

منظور شدہ بلوں کی حکومتی سطح پر تقسیم سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر قوانین (54 فیصد) مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت مخلوط حکومت کے 16 ماہ کے دوران میں منظور کیے گئے جبکہ دیگر (46 فیصد) قانون سازی اس سے قبل پی ٹی آئی کے ساڑھے 3 سالہ دورحکومت کے دوران ہوئی، پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں ایوان سے منظور ہونے والے ایک تہائی قوانین صدارتی آرڈیننس کی صورت میں پیش کیے گئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق 15ویں قومی اسمبلی نے اپنے 52 اجلاسوں کے دوران ایک ہزار 310 گھنٹے اور 47 منٹ کی آن فلور کارروائی ریکارڈ کی جس میں 687 کاروباری ایام میں 442 نشستوں پر مشتمل 52 سیشنز شامل ہیں، تاہم اسمبلی کی کارروائی کورم کی کمی، نماز کے وقفے وغیرہ جیسی مختلف وجوہات کی بنا پر 122 گھنٹے 11 منٹ تک معطل رہی۔

9 اپریل 2022 کو ختم ہونے والی پی ٹی آئی حکومت کے دور میں اسمبلی اجلاسوں میں سے تقریباً دو تہائی اجلاس (67 فیصد) مکمل ہوئے، کاروباری اوقات کے اعتبار سے بھی یہ دو تہائی فیصد (63 فیصد) کے برابر ہے۔

بقیہ ایک تہائی اجلاس (کاروباری اوقات کے اعتبار سے 37 فیصد) مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت کے دور میں ہوئے۔

قومی اسمبلی کی مدت کے دوران اسد قیصر نے بطور اسپیکر 40 فیصد کارروائی کی خود صدارت کی، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اسمبلی کی تقریباً 39 فیصد کارروائیوں کی صدارت کی جبکہ پینل آف چیئرپرسن کے اراکین نے بقیہ 21 فیصد کارروائیوں کی صدارت کی، دوسری جانب اسپیکر راجا پرویز اشرف نے 53 فیصد کارروائیوں کی صدارت کی۔

ملک بھر میں 77واں یومِ آزادی ملی جوش و جذبے سے منایا گیا

یوم آزادی کے گوگل ڈوڈل پر موجود اس ڈولفن کے بارے میں جانتے ہیں؟

امریکا: مالی فراڈ میں ملوث 6 بھارتی شہریوں کو سزا