چیلنجز کے باوجود عدالتیں انصاف کی فوری فراہمی کیلئے پرعزم ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ عدلیہ متعدد چیلنجز کا سامنا کرنے کے باوجود انصاف کی فوری فراہمی کے لیے پرعزم ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے جھوٹی اور فضول قانونی چارہ جوئی کی حوصلہ شکنی کی ضرورت پر بھی زور دیا اور عدالتوں سے مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے متبادل تنازعات کے حل (اے ڈی آر) کی اہمیت پر زور دیا۔
چیف جسٹس نے ان مشاہدات کا اظہار سپریم کورٹ میں نیشنل جوڈیشل (پالیسی سازی) کمیٹی، انصاف تک رسائی کے ترقیاتی فنڈ کی گورننگ باڈی اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کے اجلاسوں کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جب بنیادی حقوق کے تحفظ کی بات آتی ہے تو یہ معاملہ عدلیہ سے متعلقہ ہو جاتا ہے کیونکہ اسے آئین اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین کا اطلاق کرنا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ججز، جوڈیشل افسران، وکلا اور عدالتی عملے کو مشورہ دیا کہ وہ خدمات کی فراہمی کو بڑھانے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کریں۔
انہوں نے زور دیا کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز کو وفاقی اور صوبائی جوڈیشل اکیڈمیوں کے تربیتی پروگراموں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
نیشنل جوڈیشل (پالیسی سازی) کمیٹی کے اراکین نے چالان جمع کرانے، سزا سنانے اور بری کیے جانے، زیر سماعت قیدیوں کے اعدادوشمار، قیدیوں کے مسائل اور سزا یافتہ قیدیوں کی زیر التوا اپیلوں سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا۔
اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ زیر التوا مقدمات کو جلد نمٹانے کے لیے عدلیہ میں خالی آسامیوں کو ترجیحی بنیادوں پر پُر کیا جائے، تفتیشی افسران اور پراسیکیوشن کو تحقیقات اور ٹرائلز کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے تربیت دی جانی چاہیے۔
اراکین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مقدمات جلد نمٹائے جانے کو یقینی بنانے کے لیے مقدمے کے چالان مقررہ مدت کے اندر جمع کرائے جائیں، علاوہ ازیں شعبہ انصاف کے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان بہتر ہم آہنگی کے لیے باقاعدگی سے اجلاس منعقد کیے جائیں۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز نے تجویز پیش کی کہ زیر التوا مقدمات کا فیصلہ کرنے اور ضلعی عدلیہ کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھنے کے لیے خصوصی اور وقف بینچ تشکیل دیے جائیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق 30 جون تک سپریم کورٹ میں 54 ہزار 965 کیسز زیر التوا تھے، گزشتہ سال فروری میں جب چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عہدے کا حلف اٹھایا اُس وقت عدالت عظمیٰ میں 53 ہزار964 مقدمات زیر التوا تھے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ضلعی عدالتوں کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے اور خواتین جوڈیشل افسران، قانونی چارہ جو اور وکلا کے لیے سہولیات پیدا کرنے کے لیے منصوبوں پر تیزی سے عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز کو مشورہ دیا کہ وہ اے ڈی جے ایف کے ڈیڑھ ارب کے فنڈ کو عدلیہ کے بنیادی انفرااسٹرکچر کی بہتری کے لیے استعمال کریں، خیال رہے کہ مذکورہ فنڈ عدلیہ کے بجٹ مسائل کو دور کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے بنایا گیا ہے-