مسلم لیگ (ن) دوبارہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے کے ساتھ انتخابی میدان میں اترنے کی خواہاں
حال ہی میں عہدے سے سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم شہباز شریف نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رکھنے پر فخر کرتے ہوئے گزشتہ روز اعلان کیا کہ ان کی پارٹی آئندہ انتخابات ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے پر لڑے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف نے 2017 کے پاناما پیپرز کیس میں سزا سنائے جانے اور اپنے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد یہ مقبول نعرہ لانچ کیا تھا۔
نگران وزیر اعظم کے لیے سینیٹر انوار الحق کاکڑ کے نام کے اعلان سے چند گھنٹے قبل وزیر اعظم ہاؤس میں سینئر صحافیوں کے ساتھ ناشتے میں ملاقات کے دوران شہباز شریف نے کہا کہ عام انتخابات میں ان کے بڑے بھائی وزارت عظمیٰ کے لیے پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔
انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ نواز شریف کو آئندہ الیکشن لڑنے سے روکنے والی کوئی قانونی رکاوٹ موجود نہیں ہے۔
سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اور سابق وزیر دفاع خواجہ آصف کے ہمراہ شہباز شریف نے وزیر اعظم ہاؤس خالی کرنے سے قبل صحافیوں کے سوالات کے تفصیلی جوابات دیے، سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے سوال جواب کی نشست کا اہتمام کیا۔
اسٹیبلشمنٹ کا کردار
سیشن کے دوران زیادہ تر سوالات گورننس، بالخصوص ملک کے معاشی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے کردار کے گرد گھومتے رہے، تاہم شہباز شریف نے یہ تسلیم کرنے سے گریز نہیں کیا کہ وہ ہمیشہ فوج کے پسندیدہ رہے ہیں۔
2014 میں پی ٹی آئی کے دھرنے کے دوران جاری پس پردہ چالوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی انہیں ’شہباز بھائی‘ کہا کرتے تھے۔
شہباز شریف نے ریٹائرڈ جنرل جہانگیر کرامت کے بطور آرمی چیف کردار کی بھی تعریف کی جنہوں نے اُن کے بقول 1990 کی دہائی میں پنجاب کی ترقی میں اس وقت اہم کردار ادا کیا جب شہباز شریف صوبے کے وزیر اعلیٰ تھے۔
انہوں نے معاشی میدان میں فوج کے بڑھتے ہوئے کردار کا بھی زبردستی دفاع کیا، ایک رپورٹر نے حال ہی میں تشکیل دی گئی اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کی تشکیل کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا کہ کیا وزارت خزانہ کو جی ایچ کیو یا اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت رکھا گیا ہے؟ شہباز شریف نے جواب دیا کہ کونسل کی سربراہی وزیراعظم کر رہے ہیں اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر محض اس کے ایک رکن ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دیگر اداروں کی طرح فوج نے بھی ملکی ترقی میں کردار ادا کیا ہے، یہ ایک ایسی چیز ہے جسے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ میں اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہوں اور میں نے اس تاثر کا کئی بار جواب دیا ہے، خواہ یہ ہائبرڈ سسٹم ہو یا آپ اسے جو بھی کہیں، اگر یہ بھوک اور افلاس کے خاتمے اور لوگوں کی بہتری کے لیے ہے تو پھر آپ ہی بتائیں کہ یہ اچھا ہے یا برا؟
شہباز شریف نے سوال کیا کہ میری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کب نہیں بنی؟ میں گزشتہ 30 برسوں سے ان کا پسندیدہ رہا ہوں، تاہم جب عمران خان برسر اقتدار آئے تو مجھے اور میری پارٹی کے لوگوں کو جیل بھیج دیا گیا، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات کا مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوا، مجھے بتائیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات کے باوجود مجھے کبھی کوئی رعایت ملی؟
حال ہی میں ان کی جانب سے اسلام آباد میں شروع ہونے والے بہارہ کہو بائی پاس کا سہرا آرمی چیف کی کوششوں کو دیے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے وضاحت کی کہ بائی پاس، نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) نے بنایا ہے جو کہ فوج کا تعمیراتی ادارہ ہے۔
شہباز شریف نے بتایا کہ جب انہوں نے اس منصوبے پر سست پیش رفت دیکھی تو انہوں نے آرمی چیف کو کہا کہ وہ اسے اپنے عہدے کی مدت ختم ہونے سے پہلے مکمل ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے بعد این ایل سی نے اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے دن رات کام کیا۔
نواز شریف کی واپسی
مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ پارلیمنٹ پہلے ہی الیکشنز ایکٹ میں ترمیم کر چکی ہے جس کے تحت نااہلی کی مدت 5 سال تک محدود ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کیس میں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔
شہباز شریف نے اعتراف کیا کہ ان کی حکومت کے سخت فیصلوں کی وجہ سے پارٹی کا ووٹ بینک متاثر ہو سکتا ہے، لیکن انہیں فخر ہے کہ انہوں نے سیاست پر ریاست کو ترجیح دی۔
تاہم انہوں نے اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں دیا کہ اگر نواز شریف کی وطن واپسی میں کوئی مشکل پیش آئی تو کیا وہ مستقبل کے سیٹ اپ میں پارٹی یا اسٹیبلشمنٹ کی مددکے لیے آگے آئیں گے؟
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے کہا کہ نواز شریف کی نااہلی کی مدت 27 جولائی کو ختم ہو گئی ہے اور اب کوئی تکنیکی رکاوٹ انہیں الیکشن لڑنے سے نہیں روک سکتی۔
ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری کے بعد انتخابات میں ممکنہ تاخیر کے حوالے سے شہباز شریف نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) جلد از جلد عام انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا اجلاس بلانا ان کی آئینی ذمہ داری تھی، ہمارے پاس 2 راستے تھے، یا تو مردم شماری کو مسترد کر دیتے یا اسے قبول کر لیتے۔
عجلت میں قانون سازی اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں حالیہ ترامیم جیسے متنازع قوانین کے لیے پارلیمانی منظوری پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔
شہباز شریف نے قیمتوں میں اضافے کو اپنی حکومت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج قرار دیا، تاہم انہوں نے اس تاثر کو زائل کیا کہ آئی ایم ایف اس مہنگائی کا ذمہ دار ہے، ان کا کہنا تھا کہ تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے پوری دنیا میں قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔